کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 156
فرمایا: کہ مکہ! تو مجھے تمام شہروں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے رہنے والوں نے مجھے یہاں رہنے نہیں دیا، سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالا ہے اب یہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے، اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی، ﴿اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ﴾ [1]اس جگہ غور کرنے کا مقام ہے کہ اب تک جس قدر مسلمان ہوئے ہیں وہ کن حالات میں اور کس طرح اسلام کی صداقت سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے، ان کو کیسی کیسی اذیتیں برداشت کرنی پڑی ہیں اور مسلمان ہو کر انہوں نے کیسی روح فرسا اور کوہ شکن مصیبتوں کا مقابلہ کیا ہے، کیا مسلمانوں کی نسبت یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ یہ لالچ یا خوف کے ذریعہ مسلمان کیے گئے تھے؟ نہیں ہرگز نہیں ، اب اس آیت کے نازل ہونے کے بعد وہ زمانہ شروع ہوتا ہے جب کہ شریروں اور کلمہ حق کی اشاعت کو روکنے کے لیے قتل و غارت سے باز نہ آنے والوں کو سزا دینے اور اشاعت حق کی راہ سے رکاوٹ کے دور کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اب آئندہ بھی غور کرتے جاؤ اور اس بات کو ذہن نشیں رکھو کہ کس کس طرح لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہیں ۔ یہ مختصر قافلہ رات کے پہلے ہی حصہ میں روانہ ہو گیا اور اگلے دن یکم ربیع الاول ۱۴ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی سہ پہر تک سرگرم سفر رہا، سہ پہر کے قریب خیمہ ام معبد پر پہنچے، یہ بوڑھی عورت قوم خزاعہ سے تھی اور مسافروں کو پانی وغیرہ پلا دیتی تھی، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا دودھ پی کر اور تھوڑی دیر آرام فرما کر پھر روانگی کا حکم دیا، یہاں سے تھوڑی ہی دور چلے ہوں گے کہ پیچھے سے سراقہ بن مالک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کرتا ہوا آ پہنچا۔ سراقہ بن مالک بن حعشم ایک مشہور بہادر اور جنگ جو شخص تھا، سراقہ کا قصہ اس طرح ہے کہ سراقہ چند شخصوں کے ساتھ اپنے گاؤں کی مجلس بیٹھا تھا، علی الصبح کسی شخص نے مجمع میں آکر کہا کہ میں نے تین شتر سواروں کو جاتے ہوئے دیکھا ہے، وہ فلاں سمت کو جا رہے تھے، میرا خیال ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقاء تھے۔ سراقہ نے یہ سنتے ہی اس شخص کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ میں جانتا ہوں وہ تو فلاں فلاں شخص ہیں مدعا سراقہ کا یہ تھا کہ انھی میں گرفتار کروں اور کوئی دوسرا شخص ان لوگوں میں سے نہ اٹھ کھڑا ہو
[1] ’’جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے، ان کو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں ) کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے اور اللہ (ان کی مدد کرے گا، وہ) یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔‘‘ (الحج : ۲۲/۳۹) … جامع ترمذی۔ ابواب تفسیر القرآن، باب من سورۃ الحج عن ابن عباس رضی اللہ عنہ ۔