کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 155
بے اختیار داد دینی پڑتی ہے، عبداللہ بن اریقط دونوں اونٹنیاں اور ایک اپنا اونٹ لے کر غار ثور کے نزدیک دامن ثور میں رات کے وقت (یہ ماہ ربیع الاول کی چاندنی رات تھی) آ پہنچا، حضرات اسماء رضی اللہ عنہا بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بھی سفر کر لیے ستو اور کھانا وغیرہ لے کر آگئیں ۔ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم غار ثور سے نکلے، ایک اونٹنی پر آنحضور سوار ہوئے، اس اونٹنی کا نام القصواء تھا، دوسری پر سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے خادم عامر رضی اللہ عنہ بن فہیرہ دونوں سوارہوئے، عبداللہ بن اریقط جو دلیل راہ تھا اپنے اونٹ پر سوار ہوا اور یہ چار آدمیوں کا مختصر قافلہ مدینہ کی طرف عام راستے سے بچتا ہوا روانہ ہوا، [1]کیونکہ ابھی تک تعاقب کا اندیشہ باقی تھا۔ روانگی سے قبل ایک قابل تذکرہ واقعہ یہ پیش آیا کہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا جو گھر سے ستو کا تھیلا لائیں ، اس کے لٹکانے کا تسمہ بھول آئیں ، جب یہ تھیلا اونٹ کے کجاوہ سے باندھ کر لٹکانا چاہا تو کوئی تسمہ یا ڈوری اس وقت موجود نہ تھی۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہ نے فوراً اپنا نطاق (کمر سے باندھنے کی ڈوری یا کمر بند) نکال کر آدھا تو اپنی کمر سے باندھا اور آدھا کاٹ کر اس سے ستو کا تھیلا لٹکایا، اس بروقت اور برمحل تدبیر کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور ان کو ذات النطاقین کہا، چنانچہ بعد میں سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا ذات النطاقین کے لقب سے مشہور ہوئیں ، [2]یہی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بنت ابی بکر ہیں جن کے بیٹے سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تھے۔ ایک یہ بات بھی قابل تذکرہ ہے کہ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنا تمام زرنقد جو پانچ چھ ہزار درہم تھے لے کر روانہ ہوئے، سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے باپ ابوقحافہ جو ابھی تک کفر کی حالت میں تھے اور نابینا تھے گھر میں آئے، اور اپنی دونوں پوتیوں سے کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ خود بھی چلا گیا اور سارا مال و زر بھی لے گیا، سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں دادا جان وہ ہمارے لیے بہت روپیہ چھوڑ گئے، یہ کہہ کر انہوں نے ایک کپڑے میں بہت سے سنگریزے لپیٹ کر اس جگہ لے جا رکھے جہاں روپوں کی تھیلی رکھی رہتی تھی اور دادا کا ہاتھ پکڑ کر لے گئیں ۔ انہوں نے ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھ لیا اور سمجھا کہ روپیہ موجود ہے، اور پوتیوں سے کہا کہ اب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جانے کا کوئی غم نہیں ہے۔[3] سفر ہجرت: آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے القصواء پر سوار ہو کر روانگی سے پیشتر مکہ کی طرف دیکھا اور حسرت کے ساتھ
[1] صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار، حدیث ۳۹۰۵۔ [2] صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار، حدیث ۳۹۰۵۔ [3] سیرت ابن ہشام، ص ۲۴۴۔