کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 154
داخل ہوتا تو یہ جالا سلامت نہیں رہ سکتا تھا، چوتھے نے کہا وہ دیکھو کبوتر اڑا ہے اور انڈے نظر آ رہے ہیں جن کو بیٹھا ہوا سہہ رہا تھا اس کے بعد سب کو اطمینان ہو گیا اور کوئی اس غار کی طرف نہ بڑھا۔
آفتاب و ماہتاب غار ثور میں :
یہ کفار غار کے اس قدر قریب پہنچ گئے تھے کہ اندر سے ان کے پاؤں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو نظر آ رہے تھے اور ان کی باتیں کرنے کی آواز سنائی دے رہی تھی، ایسی خطرناک حالت میں سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور! کفار تو یہ پہنچ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾(التوبۃ : ۹/۔۴) (مطلق خوف نہ کر اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے) پھر فرمایا: وماظنک باثنین اللٰہ ثالثھما(تو نے ان دونوں کو کیا سمجھا ہے، جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہے)، [1] کفار اپنی تلاش و جستجو میں خائب و خاسر اور نامراد ہو کر واپس چلے گئے، رفتہ رفتہ تین دن کے بعد تھک کر اور مایوس ہو کر بیٹھ رہے۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو پہلے ہی سے ہدایت کر دی تھی کہ کفار کے تمام حالات اور دن بھر کی تمام کاروائیوں سے رات کے وقت آکر مطلع کر دیا کریں ، اسی طرح اپنے غلام عامر بن فہیرہ کو حکم دے دیا تھا کہ بکریوں کا ریوڑ دن بھر ادھر ادھر چراتے پھرا کریں ، اور رات کے وقت اس ریوڑ کو غار ثور کے قریب چراتے ہوئے لے آیا کریں ، اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے سپرد یہ خدمت تھی کہ کھانا تیار کر کے رات کے وقت احتیاط کے ساتھ غار نشینوں کو پہنچا دیا کریں ، عبداللہ اور اسماء رضی اللہ عنہما دونوں بھائی بہن اپنے اپنے فرائض انجام دے کر واپس چلے جاتے تو عامر بن فہیرہ اپنی بکریوں کا دودھ دھو کر اور غار نشینوں کو پلا کر بکریوں کا ریوڑ کچھ رات گئے لے کر مکہ میں داخل ہوتے اور اس طرح عبداللہ رضی اللہ عنہ اور اسماء رضی اللہ عنہا کے قدموں کے نشان ریوڑ سے مٹ جاتے۔
جب یہ معلوم ہو گیا کہ مکہ والوں کا جوش خروش سرد پڑ گیا، تو عبداللہ بن اریقط کے پاس خبر بھیجی گئی کہ حسب وعدہ اونٹنیاں لے کر کوہ ثور کے دامن میں آ جاؤ، اس جگہ عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کی انتہائی رازداری کی چاہے داد نہ دو … کیونکہ ان سب کے سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے نہایت قوی اور قریبی تعلقات تھے، لیکن عبداللہ بن اریقط مسلمان بھی نہ تھا محض اجیر تھا، اس شخص کی راز داری، ضبط و تحمل اور پاس عہد کا تو ذکر کرنے سے اہل عرب کی حمیت اور قوی شرافت کی
[1] صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلي الله عليه وسلم حدیث ۳۶۵۳۔ صحیح مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب من فضائل ابی بکر رضی اللہ عنہ ۔