کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 153
کہا کہ مجھ کو کیا خبر، خبر تو تم کو ہونی چاہیے کہ تم پہرے پر تھے میں تو رات بھر سوتا رہا ہوں ، کفار نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو پکڑ لیا، ان کو مارا اور تھوڑی دیر تک گرفتار رکھا پھر چھوڑ دیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اطمینان سے تمام امانتیں ان کے مالکوں کو پہنچائیں ۔
اس جگہ یہ بات خاص طور پر توجہ کے قابل ہے کہ کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے در پے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت و امانت پر ان کو اس قدر اعتماد تھا کہ اپنی قیمتی چیزیں ، زیورات، چاندی، سونا سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس امانت رکھ جاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے رخصت ہوتے وقت بھی اپنی امانت داری کو اس احتیاط سے ملحوظ رکھا کہ اپنے چچا زاد بھائی کو جو بیٹے کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس رہتے تھے صرف اس لیے چھوڑ گئے کہ امانتیں ان کے مالکوں کے پاس بہ احتیاط تمام پہنچ جائیں ۔
کفار، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر سیدھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے دروازے پر آواز دی، سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما باہر نکلیں ، ابوجہل نے پوچھا، لڑکی تیرا باپ کہا ہے؟ بولیں مجھے خبر نہیں یہ سن کر اس نے اس زور سے طمانچہ مارا کہ ان کے کان کی بالی نیچے گر گئی، اس کے بعد کفار تمام مکہ اور اس کے اطراف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش و جستجو میں دوڑے دوڑے پھرنے لگے، کہیں کوئی پتہ نہ چلا بالآخر انہوں نے اعلان
کیا کہ جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ یا مردہ گرفتار کر کے لائے گا اس کو سو اونٹ انعام دیئے جائیں گے، اس انعامی اشتہار کو سن کر بہت سے لوگ مکہ کے چاروں طرف دور دور تک نکل پڑے۔[1]
رات کی تاریکی میں دونوں محب و محبوب غار ثور کے قریب پہنچ گئے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو باہر چھوڑ کر پہلے سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غار میں داخل ہوئے، اس کو اندر سے صاف کیا۔ اس کے اندر جہاں جہاں سوراخ تھے ان کو ٹٹول ٹٹول کر ان میں اپنے بدن کے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر رکھے، اس طرح تمام روزن بند کر کے پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اندر لے گئے، یہ دونوں آفتاب و ماہتاب کامل تین دن اور تین رات غار میں چھپے رہے، قریش کے بڑے بڑے سردار انعامی اشتہار مشتہر کر کے خود بھی سراغ رسانوں کو ہمراہ لے کر نقش قدم کا سراغ لیتے ہوئے غار ثور کے منہ تک پہنچ گئے۔
ان کے ہمرا ہی سراغ رسانوں نے کہا کہ بس اس سے آگے سراغ نہیں چلتا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہیں کسی جگہ پوشیدہ ہے، یا یہاں سے آسمان پر اڑ گیا ہے، کسی نے کہا کہ اس غار کے اندر بھی تو جا کر دیکھو، دوسرا بولا ایسے تاریک اور خطرناک غار میں انسان داخل نہیں ہو سکتا، ہم اسے مدت سے اسی طرح دیکھتے آئے ہیں ، تیسرا بولا کہ دیکھو اس کے منہ پر مکڑی کا جالا تنا ہوا ہے، اگر کوئی شخص اس کے اندر
[1] سیرت ابن ہشام ص ۲۴۲، ۲۴۴۔