کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 152
ارادہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گزشتہ شب کی قرار داد کے موافق قتل کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے رات سنسان ہوتے ہی آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کا محاصرہ کر لیا اور اس انتظار میں رہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت نماز پڑھنے کے ارادے سے باہر نکلیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یک لخت حملہ آور ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الٰہی کے موافق سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر سلا دیا اور اپنی چادر ان پر ڈال دی، امانتیں جو اہل مکہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں وہ بھی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو سپرد کر کے سمجھا دیا، کہ صبح اٹھ کر یہ امانتیں ان کے مالکوں کے پاس پہنچا دینا، اس کے بعد تم بھی مدینہ کی طرف آ جانا، یہ سب کام کر کے رات کی تاریکی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے، اوّل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ یٰسین کی ابتدائی آیات ﴿فَہُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ﴾ پڑھ کر ایک مٹھی خاک پر دم کر کے ان کفار کی طرف پھینک دی اور صاف نکلے ہوئے چلے آئے، کفار میں سے کسی کو بھی نظر نہ آئے۔ ﴿وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ﴾ (الانفال : ۸/۳۰) ’’(اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اس وقت کو یاد کرو) جب کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کر دیں یا جان سے مار دیں یا (وطن سے) نکال دیں تو (ادھر تو) وہ چال چل رہے تھے اور (ادھر) اللہ تعالیٰ چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔‘‘ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دونوں اونٹنیاں عبداللہ بن اریقط کو جو کافر مگر بھروسہ کا آدمی تھا سپرد کر دی تھیں اور معقول اجرت بھی مدینہ بھر کی رہبری کے لیے ٹھہرا لی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان سے نکل کر سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکان پر تشریف لائے سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے اسی وقت دونوں روانہ ہو گئے اور مکہ کی نشیبی سمت چار میل کے فاصلہ پر کوہ ثور کے ایک غار میں جو غار ثور کے نام سے مشہور ہے چھپ کر بیٹھے رہے۔[1] ادھر مکہ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ رات بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر استراحت فرماتے رہے، کفار مکہ بھی رات بھر مکان کا محاصرہ کیے ہوئے کھڑے رہے اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو بستر پر سوتا ہوا دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گمان کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اٹھ کر باہر تشریف لانے کا انتظار کرتے رہے، جب نماز فجر کے لیے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ خواب سے بیدار ہو کر اٹھے تو کفار نے پوچھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں ؟ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے
[1] رحمۃ للعالمین ۱/۱۲۷۔