کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 151
جائے، یہ تمام لوگ بیک وقت چاروں طرف سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر گھیر کر ایک ساتھ وار کریں ، اس طرح قتل کا فعل انجام پذیر ہو گا، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خون تمام قبائل پر تقسیم ہو جائے گا، بنو ہاشم تمام قبائل قریش کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا وہ بجائے قصاص کے دیت قبول کریں گے اور دیت بڑی آسانی سے سب مل کر ادا کر دیں گے۔ ابوجہل کی اس رائے کو شیخ نجدی نے بہت پسند کیا اور تمام جلسہ نے اتفاق رائے سے اس ریزولیوشن کو پاس کیا، ادھر دارالندوہ میں یہ مشورہ ہو رہا تھا، ادھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی کفار کے تمام مشوروں کی اطلاع دی اور ہجرت کا حکم نازل فرما دیا۔[1] سفر کی تیاری: آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم مل گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھیک دوپہر کے وقت جب کہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں موسم گرما کی دھوپ اور لو سے پناہ لینے کے لیے پوشیدہ ہوتے اور راستے آنے جانے والوں سے خالی ہوتے ہیں سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے، چونکہ خلاف معمول دوپہر کے وقت تشریف لے گئے، لہٰذا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو فوراً شبہ ہوا کہ ضرور ہجرت کا حکم نازل ہو گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوّل یہ دریافت فرمایا کہ گھر میں کوئی غیر آدمی تو نہیں ہے، جب اطمینان ہوا کہ سیّدنا ابوبکر صدیق اور ان کی دونوں بیٹیوں اسماء اور عائشہ رضی اللہ عنہما کے سوا اور کوئی نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یثرب (مدینہ) کی طرف ہجرت کا حکم نازل ہو گیا۔ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ رفیق سفر کون ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ تم میرے رفیق سفر ہو گے، یہ سن کر جوش مسرت سے سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے، انہوں نے فرمایا کہ یا رسول اللہ! میں نے دو اونٹنیاں پہلے ہی سے خرید کر اور خوب کھلا پلا کر موٹی تازی کر رکھی ہیں ، ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نذر کرتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس اونٹنی کو قیمتاً لوں گا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت ادا فرمائی اور سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو وہ قیمت لینی پڑی، اسی وقت سے ہجرت کی تیاری شروع ہو گئی، سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا نے ستو کے تھیلے اور کھانے وغیرہ کا سامان درست کیا، [2] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت چھوٹی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اطلاع دے کر اپنے مکان پر واپس تشریف لے آئے، اب جو آنے والی رات تھی اسی رات میں مشرکوں کا
[1] سیرت ابن ہشام ص ۲۳۵ تا ۲۳۷۔ [2] صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار، حدیث ۳۹۰۵۔ سیرت ابن ہشام، ص ۲۴۲۔