کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 150
چلے جا چکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا رہ گئے تھے، لہٰذا ان کے لیے اس فیصلہ پر پہنچنا بہت ہی آسان تھا کہ اس دین کے بانی کا خاتمہ کر دینا نہایت ضروری ہے اور اس کام میں غفلت کرنا خطرے سے خالی نہیں ، کیونکہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکہ سے نکل گئے اور مدینہ میں اپنی جماعت سے جا ملے تو پھر اس نئے مذہب کے خطرہ کا مقابلہ کرنا بہت دشوار ہو گا، یہ خیالات قریش کے ہر شخص کی زبان سے اور ہر شخص کے دماغ میں پیدا ہوتے تھے حتیٰ کہ مکہ کی فضا میں ان خونی خیالات نے تمام قبائل کا احاطہ کر لیا۔ بالآخر ماہ صفر کی آخری تاریخوں میں نبوت کے چودہویں سال نبو ہاشم کے سوا تمام قبائل قریش کے بڑے بڑے سرداردارالندوہ میں اس مسئلہ پر غور کرنے کے لیے جمع ہوئے، اس اجلاس میں قریش کے مشہور اور قابل تذکرہ سرداریہ تھے: (۱) ابوجہل بن ہشام (قبیلہ بنو مخزوم سے،) (۲) بیہ (۳) بینہ پسران حجاج (قبیلہ بنو سہم سے،) (۴) امیہ بن خلف (بنو جمح سے،) (۵) ابوالبختری بن ہشام ، (۶) زمعہ بن اسود، (۷) حکیم بن حزام (قبیلہ بنو اسد سے) (۸) نضر بن حارث (قبیلہ بنو عبدالدار سے،) (۹) عقبہ (۱۰) شیبہ پسران ربیعہ، (۱۱) ابوسفیان بن حرب (قبیلہ بنو امیہ سے،) (۱۲) طعیمہ بن عدی، جبیر بن مطعم، (۱۳) حارث بن عامر (قبیلہ بنو نوفل سے) ان قابل تذکرہ لوگوں کے علاوہ اور بھی بہت سے سردار اس مجلس میں شریک تھے، ایک بہت تجربہ کار بوڑھا شیطان نجد کا باشندہ بھی اس اجلاس میں شریک ہوا، یہ شیخ نجد اس اجلاس کا پریزیڈنٹ بھی تھا، اس پر تو سب کا اتفاق تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک ہی تمام خطرات پیش آئندہ کا مرکز و منبع ہے، لہٰذا زیر بحث مسئلہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے۔ ایک شخص نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر زنجیروں سے جکڑ دو اور ایک کوٹھڑی میں بند کر دو کہ وہیں جسمانی اذیت اور بھوک پیاس کی تکلیف سے ہلاک ہو جائے … شیخ نجدی نے کہا کہ یہ رائے اچھی نہیں کیونکہ اس کے رشتہ دار اور پیروسن کر اس کے چھڑانے کی کوشش کریں گے، اور فساد بڑھ جائے گا۔ دوسرے شخص نے اپنی رائے اس طرح بیان کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے جلاوطن کر دو اور پھر مکہ میں داخل نہ ہونے دو، اس رائے کو بھی شیخ نجدی نے یہ لائل رد کر دیا، غرض اسی طرح اس جلسہ میں تھوڑی تھوڑی دیر تک بھانت بھانت کے جانور بولتے رہے اور شیخ نجدی ہر ایک رائے کا غلط اور نا مناسب ہونا ثابت کرتا رہا۔ بالآخر ابوجہل بولا، میری رائے یہ ہے کہ ہر ایک قبیلے سے ایک ایک شمشیر زن انتخاب کیا