کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 149
سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ جب مکہ سے جانے لگے تو ان کا تمام مال و اسباب مکہ والوں نے چھین لیا اور ہزاروں روپے کا مال و زر چھین کر بہ یک بینی و دوگوش مدینہ کی طرف جانے دیا۔[1] سیدنا ہشام بن عاص رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ارادہ کیا، مشرکین کو خبر ہو گئی، انہوں نے سیّدنا ہشام رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر قید کر دیا اور قسم قسم کی تکلیفیں پہنچائیں ۔[2] سیدنا عیاش رضی اللہ عنہ ہجرت کر کے مدینہ جا پہنچے تھے، ابوجہل ان کے پیچھے وہیں پہنچا اور دھوکا دے کر مکہ میں لایا اور یہاں لا کر قید کر دیا۔ غرض اس قسم کی رکاوٹوں کے باوجود ایک ایک دو دو کر کے بہت سے مسلمان ہجرت کر کے مدینہ میں پہنچ گئے، وہاں یہ تمام مہاجرین مدینہ کے مسلمانوں کے مہمان تھے، مکہ سے آئے ہوئے ان مہمانوں کا نام مہاجرین اور مدینہ منورہ کے باشندوں ، یعنی میزبانوں کا نام انصار مشہور ہوا، آئندہ اسی نام سے یہ لوگ تعبیر کیے جائیں گے۔ اب سنہ ۱۴ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم شروع ہو گیا تھا، مکہ میں صرف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل و عیال باقی رہ گئے تھے، یا چند نہایت ہی کمزور و ضعیف لوگ جو ہجرت کی طاقت نہ رکھتے تھے باقی تھے، ورنہ تمام مسلمان مکہ سے ہجرت کر چکے تھے اور مکہ میں بہت سے گھر جن میں مسلمان آباد تھے خالی پڑے ہوئے تھے، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی تک ہجرت کا ارادہ نہیں فرمایا تھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی الٰہی یعنی اجازت و حکم الٰہی کے منتظر تھے، سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہمراہی کے لیے کہ رفیق سفر ہوں گے روک لیا تھا،[3] اسی طرح سیّدنا علی رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور اجازت کی بنا پر رکے ہوئے تھے۔[4] دارالندوہ میں قبائل قریش کا جلسہ: قریش نے جب دیکھا کہ مسلمان ایک ایک کر کے سب نکل گئے اور مدینہ میں ایک معقول تعداد مسلمانوں کی فراہم و مہیا ہو چکی ہے جس کی طاقت اور خطرہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا تو ان کو اپنے مستقبل کی فکر پیدا ہوئی اور ان کو نمایاں طور پر نظر آنے لگا کہ ہماری عزت اور حیات کی حفاظت اسی پر منحصر ہے کہ اسلام کا استیصال کلی طور پر کر دیا جائے، چونکہ مکہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کے قریباً سب لوگ
[1] سیرت ابن ہشام بحوالہ الرحیق المختوم، ص ۲۲۰۔ [2] سیرت ابن ہشام، ص ۲۳۱۔ [3] صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار، حدیث ۳۹۰۵۔ [4] سیرت ابن ہشام، ص ۲۳۷۔