کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 148
اس کے یہاں ٹھہرتے ہیں ، چنانچہ ان دونوں نے مجھے آکر چھڑایا، اور میں چھوٹتے ہی مدینہ (یثرب) کی طرف روانہ ہو گیا۔[1] اس جگہ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بیعت عقبہ ثانیہ سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کرنا پڑے گی اور ایک مرتبہ خواب میں مقام ہجرت کا نظارہ بھی دکھا دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تھا کہ وہ کھجوروں والی زمین ہے، یعنی وہاں کھجوریں بکثرت ہیں ، یہ خواب دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال تھا کہ ہم کو یمامہ کے علاقہ میں ہجرت کرنی پڑے گی …۔ کیونکہ وہاں بھی کھجوریں بکثرت ہوتی ہیں ، اور بعد میں اب معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یثرب (مدینہ)کی طرف ہجرت کرنی ہو گی۔ مدینہ کی طرف ہجرت کا اذن عام: عقبہ ثانیہ کی بیعت کے بعد قریش کے مظالم نے مسلمانوں کے لیے مکہ کی رہائش غیر ممکن بنا دی تھی، جس کا اندازہ کرنے کے لیے ذیل کے واقعات کافی ہیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مظالم قریش کو حد سے متجاوز دیکھ کر تمام مسلمانوں کو جو مکہ میں موجود تھے اجازت دے دی کہ اپنی جان بچانے کے لیے مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں ، لوگ یہ حکم پاتے ہی اپنے گھروں کو خالی چھوڑ چھوڑ کر عزیزوں رشتہ داروں سے جدا ہو کر مدینہ کی طرف جانے لگے، قریش نے جب دیکھا کہ یہ لوگ یہاں سے ترک سکونت کرنے پر آمادہ ہیں اور مدینہ میں جا کر اطمینان و فراغت سے زندگی بسر کریں گے تو ان کو یہ بھی گوارا نہ ہوا، ہجرت کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے لگے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ارادہ کیا، مجھ کو اونٹ پر بٹھایا، میری گود میں میرا چھوٹا بچہ سلمہ تھا، جب ہم روانہ ہوئے تو میرے قبیلہ کے لوگوں نے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کو آ کر گھیر لیا اور کہا کہ تو تو جا سکتا ہے، لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ تو ہماری لڑکی کو لے جائے، اتنے میں ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے قبیلے والے بھی آ گئے، انہوں نے کہا کہ یہ نہیں جاتی تو بچہ ہمارے قبیلہ کا بچہ ہے اسے تم لوگ نہیں لے جا سکتے، چنانچہ بنو عبدالاسد تو بچہ کو چھین کر لے گئے اور بنو مغیرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو لے گئے اور ابوسلمہ رضی اللہ عنہ تنہا مدینہ کو چلے گئے، ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے خاوند اور بچہ دونوں جدا ہو گئے، اور ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے بیوی اور بیٹے دونوں کو چھوڑ کر ہجرت کا ثواب حاصل کیا۔[2]
[1] سیرت ابن ہشام، ص (۲۲۰ و ۲۲۱) زاد المعاد بہ حوالہ الرحیق المختوم ص (۲۱۸)۔ [2] سیرت ابن ہشام، ص ۲۲۹ … ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کو ایک سال کے بعد عثمان بن ابی طلحہ نے قبا کی بستی تک پہنچایا۔