کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 147
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مومنوں کی اس جماعت نے اس طرف کوئی التفات نہیں کیا، جب تمام مراتب و معاملات طے ہو چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف تشریف لے جانے کی تاریخ کا تعین اذن الٰہی پر موقوف رکھا، اس کے بعد ایک ایک دو دو کر کے سب آدمی خاموشی کے ساتھ وہاں سے نکل گئے تاکہ اس جلسہ کا حال کسی کو معلوم نہ ہو، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ دونوں مکہ میں چلے آئے، مگر صبح ہوتے ہی قریش کورات کے اس اجتماع کا حال معلوم ہوا، وہ اسی وقت مدینہ والوں کی قیام گاہ پر پہنچے اور دریافت کیا کہ رات تم لوگوں کے پاس محمد صلی اللہ علیہ وسلم آئے تھے، [1]مدینہ والوں میں جو لوگ غیر مسلم یعنی بت پرست تھے ان کو خود رات کے اس اجتماع کا حال معلوم نہ تھا، انھی میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا، جو بعد میں منافقوں کا سردار بنا۔ اس نے قریش سے کہا بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مدینہ والے کوئی اہم معاملہ کریں اور مجھ کو اس کی اطلاع نہ ہو … قریش کا شک جاتا رہا اور وہ واپس چلے گئے۔ اسی وقت اہل مدینہ نے کوچ کی تیاری کر دی اور وہاں سے روانہ ہو گئے۔ قریش کو مکہ میں آ کر پھر کسی دوسرے معتبر ذریعہ سے رات کی اس مجلس کا حال معلوم ہوا اور مسلح ہو کر دوبارہ آئے، لیکن قافلہ روانہ ہو چکا تھا صرف سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ کو کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے، منذر رضی اللہ عنہ تو قریش کو دیکھ کر چل دیئے اور ان کے ہاتھ نہ آئے، لیکن سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ رضی اللہ عنہ قریش کے ہاتھ میں گرفتار ہو گئے، قریش ان کو مارتے ہوئے مکہ میں لائے۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب قریش مجھے مکہ میں لا کر زدوکوب کر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ ایک سرخ و سفید رنگت کا خوبصورت شخص میری طرف آ رہا ہے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر کسی شخص سے اس قوم میں مجھ کو بھلائی کی توقع ہو سکتی ہے تو وہ یہی ہو گا، مگر جب وہ میرے پاس آیا تو اس نے نہایت زور سے میرے منہ پر طمانچہ مارا، اس وقت مجھ کو یقین ہوا کہ ان لوگوں میں کوئی بھی نہیں ہے جس سے مروت و رعایت کی توقع ہو سکے، … اتنے میں ایک اور شخص آیا اس نے کہا قریش کے کسی شخص سے تیری شناسائی ہے؟ میں نے کہا جبیر بن مطعم اور حارث بن امیہ کو جو عبدمناف کے پوتے ہیں جانتا ہوں ، اس نے کہا کہ پھرتو انھی دونوں کا نام لے کر کیوں نہیں پکارتا، مجھ کو یہ تدبیر بتا کر وہی شخص ان دونوں کے پاس گیا اور کہا کہ ایک قبیلہ خزرج کا شخص پٹ رہا ہے اور وہ تمہارے نام لے کر دہائی دے رہا ہے، انہوں نے پوچھا کہ اس کا کیا نام ہے؟ اسی شخص نے بتایا کہ اس کا نام سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہے، وہ بولے ہاں اس کا ہم پر احسان ہے، ہم تجارت کے لیے اس کے یہاں جاتے ہیں اور اسی کی حفاظت میں
[1] سیرت ابن ہشام، ص ۲۲۰۔ زاد المعاد بہ حوالہ الرحیق المختوم۔ ص ۲۱۶۔