کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 146
کا نام نہ لو۔‘‘
براء بن معرور رضی اللہ عنہ نے کہا، عباس! ہم نے تمہاری بات سن لی، اب ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خود اپنی زبان سے کچھ فرمائیں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریر فرمائی اور قرآن مجید کی آیات پڑھ کر سنائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر میں حقوق اللہ اور حقوق عباد کا بیان تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ذمہ داریوں کو بھی بیان فرمایا جو مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لے جانے سے مدینہ والوں پر عائد ہوتی تھیں ۔ براء بن معرور رضی اللہ عنہ نے تمام باتیں سننے کے بعد کہا ہم ان سب باتوں کے لیے تیار ہیں ، ابوہیثم بن تیہان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو وعدہ کریں کہ ہم کو چھوڑ کر واپس تو نہیں آ جائیں گے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں میرا جینا مرنا تمہارے ہی ساتھ ہو گا، عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بولے یا رسول اللہ! ہم کو اس کے معاوضہ میں کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی، عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا بس سودا ہو چکا، اب نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول سے پھریں نہ ہم پھریں گے، اس کے بعد سب نے بیعت کی، اس بیعت میں براء بن معرور رضی اللہ عنہ سب پر سابق تھے، اس بیعت کا نام بیعت عقبہ ثانیہ مشہور ہے، جب بیعت ہو چکی تو اسعد بن زراہ رضی اللہ عنہ نے سب کو مخاطب کر کے کہا کہ لوگو! آگاہ رہو کہ اس قول و قرار کا یہ مطلب ہے کہ ہم ساری دنیا کے مقابلہ کے لیے تیار ہیں ، سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں ہم خوب جانتے ہیں کہ ہم کو ساری دنیا کا مقابلہ کرنا پڑے گا، اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں میں سے بارہ بزرگوں کو منتخب فرمایا اور ان کو تبلیغ اسلام کے متعلق ہدایات دے کر اپنا نقیب مقرر کیا، اور ان کا کام اسلام کی تبلیغ کرنا مقرر فرمایا، ان نقباء کے نام یہ ہیں :
(۱) اسعد بن زرارہ (۲) اسید بن حضیر (۳) ابوہیثم بن التیہان (۴) براء بن معرور (۵) عبداللہ بن رواحہ (۶) عبادہ بن صامت (۷) سعد بن الربیع (۸) سعد بن عبادہ (۹) رافع بن مالک (۱۰) عبداللہ بن عمرو (۱۱) سعد بن خیثمہ (۱۲) منذر بن عمرو رضی اللہ عنہم اجمعین ان بارہ سرداروں میں نو آدمی قبیلہ خزرج کے تھے، اور تین قبیلہ اوس کے، ان بارہ آدمیوں سے مخاطب ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حواری ذمہ دار تھے اسی طرح میں تم کو تمہاری قوم کی تعلیم کا ذمہ دار بناتا ہوں اور میں تم سب کا ذمہ دار ہوں ،[1] جس وقت عقبہ کی گھاٹی میں یہ بیعت ہو رہی تھی، اس وقت پہاڑ کی چوٹی پر سے ایک شیطان نے اہل مکہ کو زور سے آواز دی اور کہا کہ دیکھو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی جماعت کے آدمی تمہارے خلاف مشورے کر رہے ہیں ۔
[1] سیرت ابن ہشام، ص ۲۱۵ تا ۲۲۰۔