کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 145
تمام بنو عبدالاشہل مسلمان ہو گئے، [1] اسی طرح مدینہ کے دوسرے قبائل میں بھی اسلام پھیلتا رہا، یہ نبوت کا تیرہواں سال تھا۔
ادھر معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو کامیابی حاصل ہو رہی تھی، ادھر مکہ میں قریش کے مظالم مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتے جاتے تھے، ۱۳ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ماہ ذی الحجہ آیا تو مدینہ سے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بہتر ۷۲ مرد اور دو عورتوں کے مسلم قافلہ کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے،مدینہ کے مسلمانوں نے اس قافلہ کو اس لیے بھی بھیجا تھا تاکہ زیارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہو کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ والوں کی طرف سے مدینہ میں تشریف لانے کی درخواست پیش کرے۔
بیعت عقبہ ثانیہ:
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قافلہ کے آنے کی اطلاع مل چکی تھی، رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکان سے نکلے، سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ اگرچہ اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، لیکن ہمیشہ سے ان کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمدردی تھی، قریش کی عام مخالفت میں بھی ان کے در پردہ ہمدردانہ طرز عمل سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم واقف تھے، اتفاقاً راستہ میں مل گئے، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے ہمراہ لے لیا اور اپنے ارادہ سے مطلع
فرما دیا تھا، چنانچہ دونوں رات کی تاریکی میں وادیٔ عقبہ میں پہنچے، وہاں مدینہ سے آیا ہوا مومنوں کا قافلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منتظر تھا۔
اس جگہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مدینہ سے صرف مسلمان ہی نہیں آئے تھے، بلکہ مشرکین بھی حسب دستور قدیم حج کے لیے آئے تھے، ان لوگوں نے مکہ سے باہر ہی ایک جگہ قیام کیا تھا، مگر عقبہ کی گھاٹی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لیے تجویز کر دی گئی تھی، اس لیے مدینہ کے مسلمان اور بعض غیر مسلم بھی جو اسلام کو پسند کرتے تھے ، اور مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے تھے اس گھاٹی میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے، باقی مشرکین مدینہ کو عقبہ کی اس ملاقات کا علم نہ تھا، وہ سب اصل قیام گاہ پر سو رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ میں پہنچ کر منتظر مسلمانوں سے ملاقات کی، ان کی طرف سے مدینہ میں تشریف لے جانے کی خواہش سن کر سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ایک مناسب اور ضروری تقریر کی … انہوں نے فرمایا:’’مدینہ والو ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاندان میں ہے، اس کا خاندان اس کی حفاظت کرتا ہے، تم اس کو اپنے یہاں لے جانا چاہتے ہو، یہ یاد رکھو! تم کو اس کی حفاظت کرنی پڑے گی، اس کی حفاظت کوئی آسان کام نہیں ، اگر تم عظیم الشان اور خون ریز لڑائیوں کے لیے تیار ہو تو بہتر ہے ورنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جانے
[1] سیرت ابن ہشام ص ۲۱۳ تا ۲۱۵۔