کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 141
کہا کہ اس بے دین کو مارو، چنانچہ چاروں طرف سے لوگ پل پڑے اور مارتے مارتے بیہوش کر دیا، جان سے مار ڈالے پر آمادہ تھے، کہ اتنے میں سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ جو ابھی تک کفار ہی میں شامل تھے آ گئے، انہوں نے دیکھ کر فرمایا کہ یہ قبیلہ غفار کا آدمی ہے جہاں سے تم تجارت کے لیے کھجوریں لایا کرتے ہو، لوگ یہ سن کر ہٹ گئے، یہ ہوش میں آ کر اور اٹھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے، اور اگلے دن پھر اسی طرح اعلان کیا، قریش نے پھر زدوکوب کی، غرض مکہ میں اپنے اسلام کا اعلان کر کے اپنے وطن کو واپس آئے۔[1] یثرب کی چھ سعید روحیں : ۱۱ نبوی کا آخری مہینہ تھا، مدینہ میں اوس و خزرج کی مشہور لڑائی جس کی تیاری کے لیے بنوعبدالاشہل مکہ میں آئے تھے اور جو جنگ بعاث کے نام سے مشہور ہے جس میں اوس اورخزرج کے بڑے بڑے سردار مارے گئے تھے ختم ہو چکی تھی، خانہ کعبہ کے حج کی تقریب میں ملک عرب کے مختلف حصوں سے مکہ کی طرف قافلے آنے شروع ہو گئے تھے، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان باہر سے آنے والے قافلوں کی قیام گاہوں پر جا جا کر اسلام کی تبلیغ فرماتے تھے، ابوجہل اور ابولہب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ لگے پھرتے تھے، کہ باہر سے آنے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے سے روکیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان شریروں کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے اکثر رات کی تاریکی میں مکہ سے باہر نکل جاتے اور دو دو تین تین میل کے فاصلہ پر چلے جاتے اور وہاں جہاں کہیں کسی قافلہ کو ٹھہرا ہوا پاتے، ان کے پاس جا بیٹھتے، بت پرستی کی مذمت اور توحید کا وعظ سناتے۔ چنانچہ ایک روز مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر رات کے وقت مقام عقبہ پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کی باتیں کرنے کی آوازیں سنیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قریب پہنچے دیکھا کہ چھ آدمی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس جا بیٹھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یثرب سے حج کرنے کے لیے آئے ہیں اور قبیلہ خزرج کے آدمی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسلام کی تبلیغ کی قرآن مجید کی آیات سنائیں ، انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور فوراً ایمان لے آئے۔ یثرب کی آبادی دو بڑے حصوں میں منقسم سمجھی جاتی تھی، ایک تو یہودی لوگ تھے، دوسرے بت پرست ، بت پرستوں میں اوس اور خزرج دو زبردست اور مشہور قبیلے تھے یہ لوگ یہودیوں سے یہ سنتے رہے تھے کہ ایک عظیم الشان نبی مبعوث ہونے والا ہے اور وہ سب پر غالب ہو کر رہے گا، یہ باتیں چونکہ
[1] صحیح بخاری۔ کتاب المناقب، حدیث ۳۵۲۲، ۳۵۲۳۔