کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 140
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز اس کے کانوں میں پڑ جائے۔ ایک روز علی الصبح طفیل اپنے کانوں میں روئی ٹھونس کر خانہ کعبہ میں پہنچے۔ وہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر پڑھ رہے تھے، نماز پڑھنے کا طریقہ جو آنکھوں سے نظر آتا تھا طفیل کو اچھا معلوم ہوا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب چلے گئے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کی آواز بھی کچھ کچھ سنائی دینے لگی، اب طفیل کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ آخر میں بھی شاعر ہوں ، عقلمند ہوں ، اگر اس شخص کی باتیں اچھی ہوں گی تو مان لوں گا، اگر بری ہیں تو انکار کر دوں گا یہ خیال آتے ہی روئی کانوں سے نکال کر پھینک دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ختم کر کے اپنے گھر کی طرف چلے تو طفیل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے ہولیے اور کہا کہ مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باتیں سنائیں ، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید پڑھ کر سنایا، طفیل اسی وقت مسلمان ہو گئے اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعاء کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعے میرے قبیلہ والوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دے۔‘‘ طفیل رضی اللہ عنہ مکہ سے اپنے گھر آئے اور تبلیغ اسلام شروع کر دی، سیّدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مکہ والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ستاتے ہیں آپ ہجرت فرمائیں اور میرے گھر چل کر رہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ مجھ کو ہجرت کا حکم دے گا تب ہی ہجرت کروں گا اور جس جگہ کے لیے حکم ہو گا اسی جگہ ہجرت کر کے جاؤں گا۔[1] ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ : سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ قبیلہ بنی غفار سے تعلق رکھتے اور مدینہ (یثرب) کے نواحی علاقہ میں رہتے تھے، مدینہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر سوید بن صامت اور ایاس بن معاذ کے ذریعہ پہنچی اور اڑتی ہوئی سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے کانوں تک پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی انیس کو جو شاعر بھی تھے تحقیق حال کے لیے مکہ روانہ کیا، انیس نے مکہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور مدینہ واپس جا کر سیّدنا ابوذر سے ذکر کیا کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسا شخص پایا جو نیکی کی ترغیب اور بدی سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی اس بات سے کچھ تسلی نہ ہو سکی، مدینہ سے پیدل چل کر مکہ پہنچے یہاں تک کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوتے ہی اسلام قبول کیا اور اسی وقت خانہ کعبہ میں آکر جہاں قریش کا مجمع تھا بلند آواز سے کلمہ توحید پڑھا اور قرآن مجید کی جو آیات یاد کر لی تھیں سنائیں ، قریش نے
[1] سیرت ابن ہشام بہ حوالہ الرحیق المختوم، ص (۱۹۳)۔ رحمۃ للعالمین (۱ : ۱۱۱، ۱۱۲) میں بھی جناب طفیل بن عمرو دوسی کے قبول اسلام کا واقعہ موجود ہے۔