کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 139
شروع کیے: ((الحمد للّٰہ نحمدہ و نستعینہ من یھد اللہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ ، واشھد ان لا الہ الا اللّٰه وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ۔ امابعد …)) ’’سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اسی کی ہم تعریف کرتے ہیں اور صرف اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی سیدھا راستہ نہیں دکھا سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔ وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ! اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی قدر الفاظ ابھی بیان فرمائے تھے کہ ضماد بے اختیار بول اٹھا، یہی کلمات پھر دوبارہ بیان کیجئے، چنانچہ کئی مرتبہ اس نے یہی کلمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھوائے اور پھر کہا کہ: میں نے بہت سے کاہن، ساحر، شاعر دیکھے اور ان کا کلام سنا لیکن ایسا جامع و مانع اور لطیف و بلیغ کلام کبھی نہیں سنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اپنا ہاتھ بڑھائیے میں مسلمان ہوتا ہوں اور اسلام کے لیے بیعت کرتا ہوں ۔[1] طفیل بن عمر و دوسی رضی اللہ عنہ : نواح یمن میں قبیلہ دوس آباد تھا، اس قبیلہ کا سردار طفیل بن عمرو رؤساء یمن میں شمار ہوتا تھا۔ طفیل علم و دانش مندی کے علاوہ بہت مشہور اور زبردست شاعر بھی تھا اسی سال یعنی ۱۱ نبوی میں وہ اتفاقاً مکہ کی طرف آیا، طفیل بن عمرو کے آنے کا حال سن کر سردار ان قریش استقبال کے لیے مکہ سے باہر نکلے اور بڑی عزت و تعظیم کے ساتھ شہر میں لائے، قریش کو اس بات کا اندیشہ ہوا کہ کہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے طفیل کی ملاقات نہ ہو جائے، اور طفیل پر ان کا جادو نہ چلے، چنانچہ انہوں نے مکہ میں داخل ہوتے ہی طفیل سے کہا کہ آج کل ہمارے شہر میں ایسا جادو گر پیدا ہو گیا ہے جس نے تمام شہر کو فتنہ میں ڈال دیا ہے، باپ بیٹے سے، بیٹا باپ سے، بھائی بھائی سے اور خاوند بیوی سے جدا ہو گیا ہے، آپ چونکہ ہمارے معزز مہمان ہیں لہٰذا آپ بھی احتیاط رکھیں اور کوئی کلمہ اس ساحر یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نہ سنیں ، قریش کے بار بار اور باصرار خوف دلانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ طفیل نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اچانک
[1] صحیح مسلم۔ کتاب الجمعہ۔ باب تخفیف الصلوٰۃ والخطبۃ۔