کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 138
بعض روایات میں ہے کہ وہ مسلمان ہو گیا بعض میں ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہوا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت بالکل نہیں کی، مدینہ میں جا کر وہ ایک لڑائی میں جو اوس و خزرج کے درمیان ہوئی مارا گیا۔[1] ایاس بن معاذ رضی اللہ عنہ : انھی انہیں ایام میں انس بن رافع اپنی قوم بنو عبدالاشہل کے چند لوگوں کو ہمراہ لے کر مدینہ سے مکہ میں اس لیے آیا کہ قریش مکہ سے قوم خزرج کے مقابلہ میں معاہدہ کرے اور قریش کو اپنی قوم کا ہم عہد بنائے، اس وفد کے آنے کی خبر سن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے ان کے پاس پہنچ گئے، ابھی وہ سردارن قریش سے ملنے اور اپنا مقصد بیان کرنے نہ پائے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاتے ہی ان سے کہا کہ میرے پاس ایسی چیز ہے جس میں تم سب کی بہتری مضمر ہے، اگر تم چاہو تو میں پیش کروں ، انہوں نے کہا بہت اچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیش کریں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں لوگوں کی ہدایت و رہبری کے لیے رسول مبعوث ہوا ہوں شرک سے منع کرتا، اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کا حکم دیتا ہوں ، مجھ پر اللہ تعالی نے کتاب نازل کی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے اصول بتائے اور قرآن مجید پڑھ کر سنایا۔ مدینہ کے اس وفد میں انس بن رافع کے ہمراہ ایک نوجوان ایاس بن معاذ بھی تھا، ایاس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں اور قرآن مجید کی آیتیں سن کر بے تابانہ کہا کہ اے میری قوم! تم جس مقصد کے لیے مدینہ سے آئے ہو باللہ تعالیٰ یہ چیز اس سے اچھی ہے۔‘‘ امیر وفد انس بن رافع نے ایاس بن معاذ کو ڈانٹا اور کہا ہم اس کام کے لیے نہیں آئے، ایاس خاموش ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے خاموش اٹھ کر چلے آئے، نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ کا وفد ناکام مکہ سے واپس آگیا، اور کوئی معاہدہ قریش سے نہ ہو سکا، مدینہ میں جا کر چند روز کے بعد سیّدنا ایاس بن معاذ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اور انہوں نے مرنے سے پہلے اپنے اسلام اور ایمان کا اظہار فرمایا۔[2] ضماد ازدی: ضمادازدی عرب کا مشہور افسوں گر اور یمن کا باشندہ تھا وہ ایک مرتبہ مکہ میں آیا ، یہاں قریش سے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جنات کا اثر ہے، بولا کہ میں اپنے منتر سے ابھی اس شخص کا علاج کیے دیتا ہوں ، چنانچہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ میں تم کو اپنا منتر سناتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے مجھ سے سن لو پھرتم سنانا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ کے ابتدائی کلمات اس طرح
[1] تاریخ ابن ہشام، صفحہ ۲۱۰۔ [2] تاریخ ابن ہشام، صفحہ ۲۱۰۔