کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 137
کے پاس چلے جاتے اور تبلیغ اسلام فرماتے، مگر ابولہب کو آپ کی مخالفت میں خاص کدتھی، وہ ہر جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا ہوا پہنچ جاتا اور مسافروں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے سے روکتا، بنو عامر، بنو شیبان بنو کلب، بنو محارب، فزارہ، غسان، سلیم، عبس، حارث عذرہ، ذہل اور مرہ[1] وغیرہ قبائل کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت اسلام دی۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عامر کے سامنے اسلام پیش کیا تو ان میں سے ایک شخص فراس نامی نے کہا کہ اگر ہم مسلمان ہو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہو تو کیا تم اپنے بعد ہم کو اپناخلیفہ بناؤ گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کام تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ جس کو چاہے گا وہی میرا خلیفہ ہو جائے گا۔یہ سن کر اس شخص نے کہا کہ کیا خوب! اس وقت تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع و حامی بن کر اپنی گردنیں کٹوائیں اور جب تم کامیاب ہو جاؤ تو دوسرے لوگ حکومت کا مزا اڑائیں ، جاؤ ہم کو تمہاری ضرورت نہیں ۔[2] سوید بن صامت: نبوت کا گیارہواں سال شروع ہو چکا تھا، مدینہ کا رہنے والا قبیلہ اوس کا ایک شخص سوید بن صامت مکہ میں آیا جو اپنی قوم میں کامل کے لقب سے مشہور تھا، اس کی ملاقات اتفاقاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اسلام کی دعوت دی، اس نے کہا کہ شاید آپ کے پاس بھی وہی ہے جو میرے پاس ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرے پاس کیا ہے، اس نے کہا حکمت لقمان، آپ نے فرمایا سناؤ، اس نے کچھ اشعار پڑھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا کہ یہ اچھا کلام ہے، لیکن میرے پاس قرآن مجید ہے، جو اس سے بہتر و افضل ہے، اور ہدایت و نور ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید اس کو سنایا، اس نے قرآن مجید سن کر اقرار کیا کہ واقعی یہ ہدایت اور نور ہے۔[3]
[1] صحیح یہ ہے کہ سودہ سے ۱۰ نبوت میں اور عائشہ ۷ نبوت میں نکاح کیا۔ [2] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو حنیفہ، بنو نصر، بنو البکاء اور بنو حضارمہ کو بھی دعوت اسلام دی تھی، لیکن ان تمام قبائل نے دعوت اسلام کو ٹھکرا دیا۔ جامع ترمذی بہ حوالہ الرحیق المختوم، ص ۱۸۷۔ [3] اس کے بعد قبیلہ بنو عامر کے ایک بوڑھے اور جہاں دیدہ آدمی کو جب بنو عامر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام اور بنو عامر کے انکار کا پتہ چلا تو وہ بوڑھا شخص اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور بولا : ’’اے بنو عامر! کیا اب اس کی تلافی ہو سکتی ہے؟ اور کیا اس شخص کو تلاش کیا جا سکتا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں فلاں کی جان ہے، کسی اسماعیلی (یعنی اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی شخص) نے کبھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ نہیں کیا۔ یقینا (وہ) حق ہے۔ آخر تمہاری عقل کہاں چلی گئی تھی؟‘‘ (سیرت ابن ہشام، ص ۲۰۹)