کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 136
کے سب فنا ہو جائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ہرگز نہیں ، مجھے امید ہے کہ اگر یہ لوگ اسلام نہ لائے تو ان کی اولاد ضرور خادم اسلام بنے گی، اور ان کی آئندہ نسلیں سب مسلمان ہوں گی میں ان کی ہلاکت کو پسند نہیں کرتا۔[1] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح اور معراج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : اسی سال یعنی ماہ شوال ۱۰ نبوی (حاشیہ ۱) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بنت سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور سیّدنا سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی۔ معراج کی نسبت طبری کا قول ہے کہ ابتدائے وحی یعنی نبوت کے پہلے سال ہوئی، جب سے کہ نماز فرض ہوئی، ابن حزم کا قول ہے کہ ۱۰ نبوی میں ہوئی۔ بعض روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ معراج ہجرت مدینہ کے قریب ہوئی۔ جس طرح شق صدر کی نسبت علماء کا خیال ہے کہ ایک سے زیادہ مرتبہ ہوا،اسی طرح معراج کی نسبت بھی بعض علماء کا خیال ہے کہ ایک سے زیادہ مرتبہ ہوئی، بہر حال یہ بحث اس جگہ نہیں چھیڑی جا سکتی، اس کے لیے دوسری مستقل تصانیف اور تفاسیر و سیر و احادیث کی کتابوں کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ مختلف مقامات اورمختلف قبائل میں تبلیغ اسلام: مکہ والوں سے نااُمید ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا قصد کیا تھا، طائف والوں نے مکہ والوں سے بھی بدتر نمونہ دکھایا، مکہ والوں کی نفرت اور ضد دم بدم ترقی پذیر تھی اور ان کی شرارتیں اپنی کیفیت اور کمیت میں پہلے سے زیادہ اور سخت ہوتی جاتی تھیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمت نہیں ہاری۔ طائف سے واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان قبائل میں جو ایام حج میں مکہ کے اردگرد تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رہتے تھے، برابر جاتے اور تبلیغ اسلام فرماتے رہے، چنانچہ قبیلہ بنو کندہ اور قبیلہ بنو عبداللہ کے اقامت گاہوں میں پہنچے، بنو عبداللہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بنو عبداللہ! تمہارا باپ عبداللہ تھا، تم بھی اسم بامسمی، یعنی اللہ کے بندے بن جاؤ۔ قبیلہ بنو حنیفہ کی قیام گاہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے، ان ظالموں نے سارے عرب میں سب سے زیادہ نالائق طریق پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا۔ باہر سے جو مسافر مکہ میں آتے یا ایام حج میں دور دراز مقامات کے قافلے آتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان
[1] صحیح بخاری۔ کتاب بدء الخلق حدیث :۳۲۳۱۔ صحیح مسلم۔ کتاب الجھاد، باب ما لقی النبی صلي الله عليه وسلم من اذی المشرکین۔