کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 135
عداس کو اسلام کی تبلیغ فرمائی، عداس کے قلب پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا اثر ہوا، اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو جھک کر چوما۔ عتبہ نے دور سے غلام کی اس حرکت کو دیکھا، جب عداس واپس گیا تو عتبہ نے اس سے کہا کہ اس شخص کی باتوں میں نہ آ جانا اس سے تو تیرا ہی دین بہتر ہے۔ تھوڑی دیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کے باغ میں آرام کیا، پھر وہاں سے اٹھ کر چل دیے وہاں سے روانہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام نخلہ میں پہنچے اور رات کو کھجوروں کے ایک باغ میں قیام فرمایا، اسی جگہ بعض جنات کے سرداروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن شریف پڑھتے ہوئے سنا[1] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔ مکہ کو واپسی: نخلہ سے روانہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ حرا پر تشریف لائے اور یہاں مقیم ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض سرداران قریش کے پاس پیغام بھیجا، مگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ضمانت اور پناہ میں لینے کے لیے تیار نہ ہوا۔ مطعم بن عدی کے پاس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیام پہنچا تو وہ بھی اگرچہ مشرک اور کافر تھا مگر عربی شرافت اور قومی حمیت کے جذبہ سے متاثر ہو کر فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدھا کوہ حرا پر پہنچ کر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہمراہ لے کر مکہ آیا، مطعم کے بیٹے ننگی تلواریں لے کر خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کا طوائف کیا، اس کے بعد مطعم اور اس کے بیٹوں نے ننگی تلواروں کے سایہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر تک پہنچا دیا۔ قریش نے مطعم سے پوچھا کہ تم کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا واسطہ ہے، مطعم نے جواب دیا کہ مجھ کو واسطہ تو کچھ نہیں ، لیکن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حمایتی ہوں ، جب تک وہ میری حمایت میں ہیں کوئی نظر بھر کر ان کو نہیں دیکھ سکتا، مطعم کی یہ ہمت و حمایت دیکھ کر قریش کچھ خاموش سے ہو کر رہ گئے۔[2] ایک روایت میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے اس مذکورہ بالا حالت میں نکلے تو ایک فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو میں پہاڑ اٹھا کر اہل طائف پر ڈال دوں ، یہ سب
[1] جنات کی ایک جماعت نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو آیات قرآنی سنی تھیں ، وہ سورۃ الاحقاف : ۴۶ کی آیات ۲۹ تا ۳۱ اور سورہ جن ۷۲ کی آیات ۱ تا ۱۵ ہیں ۔ [2] جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر طائف اور پھر واپسی کی یہ تفصیلات مختلف کتب سیرت میں موجود ہیں ۔ سیرت ابن ہشام، ص ۲۰۶ تا ۲۰۸، زاد المعاد ، ص ۶۸۹ تا ۶۹۲، رحمۃ للعالمین ۱: ۱۰۰ تا ۱۰۲۔