کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 134
سے کلام کیا جائے۔ اہل طائف کی گستاخیاں : جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد یا لیل اور اس کے بھائیوں کی طرف سے مایوسی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ اچھا آپ اپنے ان خیالات کو اپنی ہی ذات تک محدود رکھیں ، اور دوسروں تک ان باتوں کی اشاعت نہ کریں ، وہیں سے اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے میں مصروف ہوئے، لیکن عبد یالیل اور اس کے بھائیوں نے اپنے غلاموں اور شہر کے لڑکوں اور اوباشوں کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا، آپ جہاں جہاں جاتے بدمعاشوں ، اوباشوں اور لڑکوں کا ایک انبوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے گالیاں دیتا اور ڈھیلے مارتا ہوا ہو لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار خادم سیّدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے میں مصروف تھے، پتھروں اور ڈھیلوں کی بارش میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ دونوں زخمی ہو گئے، باہر کو چلے تو بھی اوباشان طائف کا ہجوم گالیاں دیتا اور پتھر مارتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ تھا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے باہر نکل آئے مگر بدمعاشوں کے ہجوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا نہ چھوڑا، ان بدمعاشوں کے ہجوم نے تین میل تک شہر سے باہر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کیا، آپ کی پنڈلیاں پتھر کی بارش سے لہولہان ہو گئیں اور اس قدر خون بہا کہ جوتیوں میں خون بھر گیا اسی طرح تمام جسم زخموں سے لہولہان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ میں طائف سے تین میل تک بھاگا اور مجھے کچھ ہوش نہ تھا کہ کہاں سے آ رہا ہوں اور کدھر جا رہا ہوں ، طائف سے تین میل کے فاصلہ پر مکہ کے ایک رئیس عتبہ بن ربیعہ کا باغ تھا، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باغ میں آ کر پناہ لی اور طائف کے اوباشوں کا ہجوم طائف کی طرف واپس ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس باغ کی دیوار کے سائے میں بیٹھ گئے اور اپنی بے کسی و بے چارگی دیکھ کر جناب الٰہی سے دعا کی کہ الٰہی بے کسوں اور ضعیفوں کا توہی محافظ و نگہبان ہے اور میں تجھی سے مدد کا خواستگار ہوں ۔[1] عتبہ بن ربیعہ اس وقت باغ میں موجود تھا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دور سے اس حالت میں دیکھا تو عربی شرافت اور مسافر نوازی کے تقاضے سے اپنے غلام عداس کے ہاتھ ایک رکابی میں انگور کے خوشے رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجوایا، یہ غلام نینوا کا باشندہ عیسائی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ انگور کھائے اور
[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قدرے طویل ہے جو الشیخ صفی الرحمن مبارک پوری نے اپنی شہرہ آفاق کتاب الرحیق المختوم میں صفحہ ۱۸۱ و ۱۸۲ پر درج کی ہے۔