کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 133
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر تمسخرانہ انداز میں کہا عبد مناف والو! دیکھو تمہارا نبی آ گیا، عتبہ بن ربیعہ نے کہا ہمیں کیا انکار ہے کوئی نبی بن بیٹھے، کوئی فرشتہ بن جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا تو نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ و رسول کی حمایت نہ کی اور اپنی ضد پر اڑا رہا، پھر ابوجہل سے کہا کہ تیرے لیے وہ وقت قریب آ رہا ہے کہ تو ہنسے گا کم اور روئے گا زیادہ، پھر تمام مشرکین سے کہا کہ وہ وقت قریب آ رہا ہے کہ تم جس دین کا انکار کر رہے ہو اسی میں داخل ہو جاؤ گے۔ سفر طائف : غرض قریش کی ضد دم بدم ترقی کرتی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعب ابوطالب ہی کے زمانے سے قریش کے سوا باہر کے لوگوں میں جب کہ وہ حج کے لیے مکہ آتے تھے تبلیغ کا کام شروع کر دیا تھا، جس کا کوئی معتدبہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا، اب مکہ والوں کو حد سے زیادہ سخت اور اسلام سے متنفر دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا تھا کہ طائف والوں کو دعوت اسلام دیں ۔ طائف مکہ سے تین منزل یعنی ساٹھ میل کے فاصلہ [1] پر مکہ ہی کے برابر بڑا شہر تھا، وہاں ثقیف آباد تھے جو لات کی پرستش کرتے تھے، وہاں لات کا مندر تھا اور سارا شہر اسی مندر کا پجاری تھا۔ ۱۰ نبوی شوال کے مہینے میں ، یعنی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے ایک مہینہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم زید بن حارثہ کو ہمراہ لے کر پیدل طائف میں پہنچے، وہاں پہنچنے سے پہلے راستہ میں اوّل آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی بکر میں تشریف لے گئے، جب ان کو بھی مکہ والوں کا ساتھی اور ہم خیال پایا تو قوم قحطان کے پاس گئے ان کو بھی سنگ دلی میں قریش کے ہمسر پایا تو طائف میں پہنچے۔ طائف میں داخل ہو کر اوّل آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کے رؤساء سے ملے، طائف کے سرداروں میں عبدیا لیل بن عمرو بن عمیر اور اس کے دونوں بھائی مسعود و حبیب سب سے زیادہ با اثر اور بنی ثقیف کے رئیس سمجھے جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تینوں سے ملے اور اسلام کی طرف دعوت دی، یہ بڑے مغرور و متکبر تھے ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ اپنا رسول بناتا تو تو یوں ہی پیدل جوتیاں چٹخاتا پھرتا؟ دوسرے نے کہا کیا اللہ تعالیٰ کو کوئی اورآدمی نہ ملا جو تجھ کو رسول بنایا۔ ((لولا نزل ھذالقران علی رجل من القریتین عظیم)) تیسرا بولا میں تجھ سے کلام کرنا نہیں چاہتا، کیونکہ اگر تو اپنے قول کے موافق اللہ تعالیٰ کا رسول ہے تو تیرے کلام کا رد کرنا خطرناک بات ہے اور اگر تو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتا ہے تو مناسب نہیں کہ ایسے شخص
[1] طائف، مکہ سے تقریباً ۱۴۰ کلومیٹر دور ہے۔