کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 132
رب کی عبادت کروں ، ابن الدغنہ نے کہا کہ آپ تو ایسے شخص ہیں نہ آپ کو خود مکہ سے نکلنا چاہیے، نہ آپ کی قوم کو یہ گوارا ہونا چاہیے کہ آپ مکہ سے نکلیں ، میں آپ کو پناہ میں لیتا ہوں ، آپ واپس چلیے اور مکہ ہی میں اپنے رب کی عبادت کیجئے، چنانچہ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مکہ میں واپس آئے، ابن الدغنہ نے رؤساء قریش کو جمع کر کے بہت شرمندہ کیا اور کہا کہ تم ایسی نیک صفات والے شخص کو نکالتے ہو جس کا وجود کسی قوم کے لیے موجب فخر ہو سکتا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے مکان کے آنگن میں ایک چھوٹا سا چبوترہ بطور مسجد بنا لیا، وہیں قرآن شریف پڑھا کرتے اور عبادت الٰہی میں مصروف رہتے تھے، ان کی قرآن خوانی کی آواز کا اثر محلہ کی عورتوں اور بچوں پر بہت ہوتا تھا، قریش کو یہ بھی گوارا نہ ہو ا اور ابن الدغنہ نے منع کیا تو سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہاری پناہ سے نکلتا اور اپنے اللہ تعالیٰ تعالی کی پناہ کو کافی سمجھتا ہوں مگر قرآن خوانی کو ترک نہیں کر سکتا۔[1] ابوطالب کی وفات کے قریباً دو ماہ بعد رمضان ۱۰ نبوی میں سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا بھی انتقال ہو گیا، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی محبت تھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام مصائب و تکالیف میں رفیق تھیں ، سب سے پہلے وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائی تھیں ، انہوں نے ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت بندھائی اور مصیبتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی تھی، ابوطالب اور خدیجہ رضی اللہ عنہا دونوں ایسے رفیق اور ہمدرد تھے کہ ان کی وفات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت غمگین بنا دیا اور ساتھ ہی قریش کی ایذار سانیوں میں اضافہ ہونے لگا۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم راستہ میں جا رہے تھے کہ کسی شریر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر بہت سے کیچڑ اٹھا کر ڈال دی، سروریش کے تمام بال آلودہ اور جسم مبارک کے کپڑے ناصاف ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں اپنے گھر کے اندر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا پانی لے کر اٹھیں ، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سردھلاتی جاتی تھیں اور زارو قطار رو رہی تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹی رؤو مت اللہ تعالیٰ تعالی تمہارے باپ کی خود حفاظتکرے گا۔[2] ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں گئے، وہاں بہت سے مشرک بیٹھے ہوئے تھے، ابوجہل نے
[1] صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار، حدیث ۳۹۰۵۔ سیرت ابن ہشام ص ۱۸۳،۱۸۴۔ [2] جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جب تک ابوطالب زندہ تھے، قریش مجھے کوئی تکلیف نہ دے سکے۔ (سیرت ابن ہشام، ص :۲۰۵)