کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 131
آئے، دیکھا تو دیمک نے تمام حروف چاٹ لیے تھے، جہاں جہاں لفظ اللہ لکھا ہوا تھا وہ البتہ بدستور موجود تھا، یہ دیکھ کر سب حیران اور ششدر رہ گئے اور اسی وقت مقاطعے کے ختم ہونے کا اعلان کر دیا۔ بنو ہاشم اور تمام مسلمان شعب ابوطالب سے تین سال کے بعد نکلے، اور مکہ میں آ کر اپنے گھروں میں رہنے سہنے لگے، شعب ابوطالب میں مسلمانوں کو بھوک سے بیتاب ہو کر اکثر درختوں کے پتے کھانے پڑتے تھے، بعض بعض شخصوں کی حالت یہاں تک پہنچی کہ اگر کہیں سوکھا ہوا چمڑا مل گیا تو اسی کو صاف اور نرم کر کے آگ پر رکھا اور بھون کر چبایا، [1] حکیم بن حزام کبھی کبھی اپنے غلام کے ہاتھ اپنی پھوپھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے کچھ کھانا چھپا کر بھیجوایا کرتے تھے، اس کا حال جب ایک مرتبہ ابوجہل کو معلوم ہوا تو اس نے غلام سے غلہ چھین لینا چاہا اور زیادہ سختی سے نگرانی شروع کر دی۔[2] عام الحزن یعنی نبوت کا دسواں سال: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعب ابی طالب سے نکلے ہیں تو نبوت کا دسواں سال شروع ہو چکا تھا، امید یہ تھی کہ اب مسلمانوں کے ساتھ قریش کی طرف سے رعایت اور نرمی کا برتاؤ ہو گا، مگر نہیں مسلمانوں کی محنتیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مصائب اور بھی زیادہ بڑھ گئے، اور جلد ہی ایسے حالات پیش آئے کہ اس سال کا نام ہی عام الحزن، یعنی غموں کا سال مسلمانوں میں مشہور ہوا، رجب کے مہینے میں ابوطالب جن کی عمر اسی سال سے اوپر تھی بیمار ہو کر فوت ہوئے، ابوطالب کے فوت ہوتے ہی کفار مکہ یعنی دشمنان دین کی ہمتیں بڑھ گئیں ، ابوطالب ہی ایک با اثر اور بنی ہاشم کے ایسے سردار تھے جن کا سب لحاظ کرتے اور ڈرتے تھے، ان کے مرتے ہی بنی ہاشم کا رعب و اثر جو مکہ میں قائم تھا باقی نہ رہا، قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانے اور نقصان پہنچانے کے لیے میدان خالی پا کر آزادانہ اور بے باکانہ مظالم کا سلسلہ جاری کر دیا۔ اسی سال سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی مظالم قریش سے تنگ آکر ہجرت کا ارادہ کیا اور مکہ سے نکلے، راستہ میں چار منزل کے فاصلہ پر برک الغماد کے پاس قبیلہ قارہ کے سردار ابن الدغنہ سے ان کی ملاقات ہوئی، ابن الدغنہ نے پوچھا کہاں جاتے ہو؟ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے میری قوم نے اس قدر ستایا ہے کہ میں نے اب ارادہ کیاہے کہ مکہ سے نکل کر کسی دوسری جگہ جا کر رہوں اور اپنے
[1] اس سے ان مسلمانوں کی ایمانی حالت اور استقامت و پامردی کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے، اور پھر وہ ایسے کندن بنے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان سے راضی ہونے کی گواہی یوں دی ﴿رضی اللّٰہ عنھم و رضوا عنہ﴾ (البینہ : ۹۸/۸) [2] صحیح بخاری۔ کتاب المناسک الحج۔ حدیث ۱۵۹۰، سیرت ابن ہشام، صفحہ ۱۸۴ تا ۱۸۷۔