کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 130
تین برس تک بنو ہاشم اور مکہ کے مسلمانوں نے بڑی بڑی تکلیفیں اور اذیتیں شعب ابوطالب میں برداشت کیں جن کے تصور سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ۔ صرف ایام حج میں یہ محصور لوگ باہر نکلتے تھے اور عرب کے دستور کے موافق ان ایام میں جو امن عام ہوتا تھا اس سے فائدہ اٹھاتے اور اپنے کھانے پینے کا سامان خرید کر ذخیرہ کر لیتے تھے، انھی ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی باہر نکلتے اور باہر سے آئے ہوئے لوگوں میں تبلیغ اسلام کرتے تھے، لیکن قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ لگے رہتے اور جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاتے لوگوں کو آپ کی باتیں سننے سے منع کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیوانہ اور جادو گر بتا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی کو متوجہ نہ ہونے دیتے تھے۔ شعب ابوطالب کی سہ سالہ سختیوں کا تصور کرنے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ قبیلوں کی حمیت اور خاندان و نسل کا پاس و لحاظ بھی ایک بڑی چیز ہے اور اسی نے بنو ہاشم کے ان لوگوں کو جو مسلمان نہیں ہوئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے پر مجبور کر دیا تھا، دوسری طرف شعب ابوطالب کی قیدو نظر بندی نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا زیادہ مطالعہ کرنے، زیادہ متاثر ہونے اور اسلام سے زیادہ واقف ہونے کا موقع دیا اور اس نسلی امتیاز نے ان کو (بنی ہاشم) کو بجا طور پر مستحق تکریم بنا دیا۔ تین سال کی اس ظالمانہ قید اور بنی ہاشم کے مصائب نے بالآخر قریش کے بعض افراد کو متاثر کیا۔ بنی ہاشم کے چھوٹے چھوٹے بچوں کا بھوک کے مارے تڑپنا اور فاقہ زدہ والدین کے سامنے ان کی اولاد کا بلکنا ایسی چیزیں تھیں کہ قریش مکہ ان کا صحیح اندازہ کر سکتے تھے، زہیر بن ابی امیہ بن مغیرہ نے بنی ہاشم کی مصیبت کو اس لیے سب سے پہلے محسوس کیا کہ ابو طالب اس کے ماموں تھے، زہیر نے اوّل مطعم بن عدی بن نوفل بن عبدمناف کو رشتہ داری کی طرف توجہ دلا کر عہد نامے کے توڑنے پر مجبور کیا، پھر ابوالبختری بن ہشام اور زمعہ بن الاسود کو اپنا ہم خیال بنا لیا، غرض مکہ میں کئی شخص جو بنو ہاشم سے قرابت داری رکھتے تھے بنو ہاشم کو مظلوم سمجھ کر اس ظالمانہ عہد نامہ کی تنسیخ کے متعلق چرچا کرنے لگے۔ انھی ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب سے کہا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ اس عہد نامہ کی تمام تحریروں کو کیڑوں نے کھا لیا ہے اس میں جہاں جہاں اللہ کا نام ہے وہ بدستور لکھا ہوا ہے، لفظ اللہ کے سوا باقی تمام حروف غائب ہو چکے ہیں ، یہ سن کر ابوطالب اپنی گھاٹی سے باہر نکلے اور انہوں نے قریش سے کہا کہ مجھ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی خبر دی ہے، تم عہد نامہ کو دیکھو اگر یہ خبر صحیح ہے اور عہد نامہ کی تحریر معدوم ہو چکی ہے تو مقاطعہ ختم ہو جانا چاہیے، چنانچہ اسی وقت قریش خانہ کعبہ میں دوڑے ہوئے