کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 129
میں نمازیں پڑھنے لگے،[1] بہت سے مسلمان نجاشی کے ملک میں جا چکے تھے جن پر قریش کا کوئی زور نہیں چلتا تھا، سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے مکہ کے مسلمانوں پر بھی وہ بلا خطرہ ہاتھ نہیں ڈال سکتے تھے۔[2] ان حالات کو دیکھ کر نبوت کے ساتویں سال کی ابتدا یعنی ماہ محرم میں قریش نے ایک مجلس مشاورت منعقد کی، مسلمانوں کی روز افزوں جماعت کے خطرات سے قوم کو آگاہ کیا اور اس اندیشہ و خطرہ سے محفوظ رہنے کی تدبیر پر غور کیا گیا۔
بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب اگرچہ سب کے سب مسلمان نہیں ہوئے لیکن وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت اور رعایت سے باز نہیں آتے لہٰذا اوّل ابوطالب سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے بھتیجے) کو ہمارے حوالے کر دیں ، اگر وہ انکار کریں تو بنو ہاشم اور نبی عبدالمطلب سے شادی بیاہ میل ملاقات، سلام پیام سب ترک کر دیا جائے، کوئی چیز ان کے ہاتھ فروخت نہ کی جائے اور کھانے پینے کی کوئی چیز ان کے پاس نہ پہنچنے دی جائے، اور اس سخت اذیت رساں مقاطعے کو اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے سپرد نہ کریں ۔
چنانچہ اس مقاطعہ کے متعلق ایک عہد نامہ لکھا گیا، [3] تمام رؤساء قریش نے اس پر قسمیں کھائیں اور عہد نامہ پر دستخط کیے، یہ دستخط شدہ عہد نامہ خانہ کعبہ میں لٹکا دیا گیا اور مقاطعہ شروع ہوگیا، ابوطالب تمام بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کو لے کر مکہ کے قریب ایک پہاڑی درے میں جا کر محصور ہو گئے ، جس قدر مسلمان تھے وہ بھی ان کے ساتھ اسی درے میں جو شعب ابی طالب کے نام سے مشہور ہے چلے گئے، بنو ہاشم سے صرف ایک شخص ابولہب اس قیدونظر بندی سے آزاد رہا، وہ کفار قریش کے ساتھ تھا، غلہ وغیرہ جو کچھ بنو ہاشم اپنے ساتھ لے گئے تھے وہ جلد ختم ہو گیا، اور ان لوگوں کو کھانے پینے کی بڑی تکلیف ہونے لگی، درے میں جانے کا صرف ایک تنگ راستہ تھا کوئی شخص باہر نہیں نکل سکتا تھا۔
[1] عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سے عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا، تب سے ہم برابر طاقتور اور باعزت رہے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب فضائل اصحاب النبی صلي الله عليه وسلم حدیث ۳۶۸۴)
[2] صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے بعد کفار مکہ نے ان کو قتل کرنے کا پروگرام مرتب کیا اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ بھی کر لیا۔ لیکن ایک با اثر شخص کے کہنے پر وہ اس ارادہ کو تکمیل تک پہنچانے سے رک گئے، جس نے ان کو کہا تھا کہ اگر تم نے عمر کو قتل کر دیا تو عمر کے وارثین اور مسلمان تمہیں بھی زندہ نہ چھوڑیں گے۔ ملاحظہ ہو : صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار، حدیث ۳۸۶۴ و ۳۸۶۵۔
[3] ابن قیم رحمہ اللہ کے قول کے مطابق یہ عہد نامہ بغیض بن عامر بن ہاشم نے لکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بد دعا کی اور اس کا ہاتھ شل ہو گیا۔ (زاد المعاد ۲: ۴۶)