کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 128
سے نہ تھی جو بہن کے گھر تک ان کے دل میں تھا۔ دار ارقم کے دروازے پر پہنچ کر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دستک دی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو اندر تھے انہوں نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں شمشیر برہنہ دیکھ کر دروازہ کھولنے میں تامل کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ ننگی تلوار لیے دروازہ پر کھڑا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دروازہ کھول دو، سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے انہوں نے کہا آنے دو اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر اڑا دیا جائے گا، چنانچہ دروازہ کھولا گیا، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو گھر میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا اور فرمایا کہ اے عمر ! کیا تو باز نہ آئے گا، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواباً عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایمان لانے کے لیے حاضر ہوا ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنتے ہی جوش مسرت میں بلند آواز سے اللہ اکبر کہا اور ساتھ ہی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے جو اس وقت دار ارقم میں موجود تھے اس زور سے اللہ اکبر کہا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج گئیں ، سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے سے مسلمانوں کو بڑی تقویت حاصل ہو گئی۔[1] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہونے کے بعد سیدھے ابوجہل کے گھر پہنچے دروازہ پر دستک دی، وہ باہر آیا اور بہ خندہ پیشانی اہلاً و سہلاً و مرحبا کہا اور آنے کی وجہ دریافت کی، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مانتا ہوں ، یہ سنتے ہی ابوجہل جھلا کر اندر چلا گیا اور یہ بھی واپس چلے آئے مدعا ان کا یہ تھا کہ اس سب سے بڑے دشمن اسلام کو اپنے مسلمان ہونے کی خبر دے کر جلاؤں ۔[2] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمان ہوتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم کو اب پوشیدہ طور پر گھروں میں نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ، بلکہ علانیہ خانہ کعبہ میں نمازیں پڑھنی چاہیں ، چنانچہ قریش میں اوّل اول جو کوئی مانع ہوا سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا مقابلہ کیا، پھر بلا روک ٹوک مسلمان خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے لگے اور اسلام مکہ میں علانیہ اور آشکار اطور پر ظاہر ہو گیا، یہ نبوت کے چھٹے سال کے آخری مہینے کا واقعہ ہے، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی عمر اس وقت ۳۳ سال کی تھی سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے وقت مکہ میں مسلمانوں کی تعداد چالیس ہو گئی ملک حبش میں جو مسلمان تھے وہ اس تعداد کے علاوہ تھے۔ قطع موالات: سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے سے قریش کو بڑا صدمہ پہنچا، ادھر مسلمان علانیہ خانہ کعبہ
[1] عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سید الشہداء سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے صرف تین دن بعد اسلام قبول کر لیا تھا۔ [2] سیرت ابن ہشام، صفحہ ۱۷۱ و ۱۷۲۔