کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 126
ہونے نے ان کو کسی قدر محتاط اور مؤدب بنا دیا اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے میں کچھ تامل کرنے لگے۔ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا: سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کی خبر سن کر قریش کے فکر و تردد اور بغض و عداوت نے اور بھی ترقی کی اور آپس میں مشورے ہونے لگے۔ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی طرح مشہور پہلوان اور عرب کے نامور بہادروں میں سے تھے، مسلمانوں کو ایذا پہنچانے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوشش کرنے میں نمایاں حصہ لیتے تھے، وہ مسلمانوں کو پکڑ کر لاتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو دم لیتے اور پھر اٹھ کر مارتے، آخر ایک روز انہوں نے فیصلہ کیا اور کفار کی مجلس میں وعدہ کیا کہ میں تنہا قریش کے اوپر وارد ہونے والے اس فتنہ کو مٹائے دیتا ہوں ، یعنی اس فتنہ کے بانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کیے دیتا ہوں ۔ (نعوذ باللہ) ابوجہل نے یہ سن کر کہا کہ اگر تم نے یہ کام پورا کر دیا تو سو اونٹ اور ہزار اوقیہ چاندی نذر کروں گا، چنانچہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ مسلح ہو کر شمشیر بدست نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش و جستجو کرنے لگے، راستہ میں سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ [1] نے پوچھا کہ عمر رضی اللہ عنہ ! اس طرح کہاں جاتے ہو انہوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے جاتا ہوں ، کیونکہ میرا ارادہ ہے کہ آج قریش کی مصیبت اور ان کی بیسیوں تدبیروں کو سہل کر دوں ، سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم بنی ہاشم کے انتقام سے نہیں ڈرتے؟ اور یہ نہیں جانتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل کوئی آسان کام نہیں ہے؟ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب تک میرے ہاتھ میں تلوار ہے مجھ کو کسی کا بھی کچھ خوف نہیں ہے، پھر سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم مجھ کو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تو بعد میں قتل کرنا پہلے اپنے ہی گھر کی خبر لو کہ تمہاری بہن مسلمان ہو چکی اور اسلام تمہارے گھر میں داخل ہو چکا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ نشتر زن جواب سن کر اسی وقت اپنی بہن کے گھر کی طرف چل دیئے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے نیت سے چلے تھے راستے میں اپنی بہن کے گھر کی طرف ان کا رخ پھرنا گویا اسلام کی طرف رخ پھرنا تھا، بہن کے گھر پہنچے وہاں سیّدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر سیّدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو قرآن شریف کی تعلیم دے رہے تھے، ان کے آنے کی آہٹ سن کر سیّدنا خباب رضی اللہ عنہ تو وہیں گھر میں کسی جگہ چھپ گئے اور قرآن کریم جن اوراق پر لکھا ہوا تھا اس کو بھی فوراً چھپا دیا، انہوں نے گھر میں داخل ہوتے ہی پوچھا کہ تم کیا پڑھ رہے تھے؟ پھر فوراً اپنے
[1] یہ درست نہیں ۔ صحیح یہ ہے کہ راستہ میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ملاقات نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی۔ ملاحظہ ہو سیرت ابن ہشام، صفحہ ۱۶۸۔