کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 125
محبت تھی مگروہ ابھی تک شرک پر قائم اور مشرکوں کے شریک حال تھے ان کی عادت تھی کہ تیر کمان لے کر صبح جنگل کی طرف نکل جاتے، دن بھر شکار مارتے اور شکار کی تلاش میں مصروف رہتے، شام کو واپس آ کر اوّل خانہ کعبہ کا طواف کرتے پھر اپنے گھر جاتے، وہ حسب معمول جب شکار سے واپس آئے تو اوّل راستے ہی میں ابوجہل کی لونڈی ملی، اس نے ابوجہل کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینا اور پتھر مارنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر و شکر کے ساتھ خاموش رہنا سب بیان کر دیا۔ سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہونے کے علاوہ رضاعی بھائی بھی تھے، خون اور دودھ کے جوش نے ان کو از خود رفتہ کر دیا وہ اوّل خانہ کعبہ میں گئے وہاں طواف سے فارغ ہو کر سیدھے اس مجمع کی طرف متوجہ ہوئے جہاں ابوجہل بیٹھا ہوا باتیں کر رہا تھا۔ سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بہت بڑے پہلوان، جنگ جو اور عرب کے مشہور بہادروں میں شمار ہوتے تھے، انہوں نے جاتے ہی ابوجہل کے سر پر اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا، پھر کہا کہ میں بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر ہوں اور وہی کہتا ہوں جو وہ کہتا ہے، اگر تجھ میں کچھ ہمت ہے تو اب میرے سامنے بول ، ابوجہل کے ساتھیوں کو غصہ آیا اور وہ اس کی حمایت میں اٹھے، مگر ابوجہل سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بہادری سے اس قدر متاثر اور مرعوب تھا کہ اس نے خود ہی اپنے حمائیتیوں کو بھی یہ کہہ کر روک دیا کہ واقعی مجھ ہی سے زیادتی ہو گئی تھی، [1] ا گر حمزہ رضی اللہ عنہ مجھ سے اپنے بھتیجے کا انتقام نہ لیتے تو بے حمیت شمار ہوتے، غالباً ابوجہل کو سیّدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلام سن کر یہ اندیشہ بھی پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ اس طیش و غضب کی وجہ سے ضد میں آکر مسلمان ہی نہ ہو جائیں ، اور اسی لیے اس نے ایسی بات سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو سنانے کے لیے کہی کہ بات یہیں ختم ہو کر رہ جائے اور حمزہ رضی اللہ عنہ اسلام کی طرف متوجہ نہ ہو سکیں ۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ ابوجہل کی مزاج پرسی کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ’’بھتیجے تم یہ سن کر خوش ہو گے کہ میں نے ابوجہل سے تمہارا بدلہ لے لیا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چچا! میں ایسی باتوں سے خوش نہیں ہوا کرتا ہاں اگر آپ مسلمان ہو جائیں تو مجھ کو بڑی خوشی حاصل ہو۔‘‘ یہ سن کر سیّدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسی وقت اسلام قبول کر لیا، سیّدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے سے مسلمانوں کی آفت رسیدہ جمعیت کو بڑی قوت اور امداد حاصل ہوئی۔ یہ نبوت کے چھٹے سال کا واقعہ ہے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دار ارقم میں تھے، قریش مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بہت ہی گستاخ اور بے باک ہو گئے تھے، اب سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان
[1] سیرت ابن ہشام، صفحہ ۱۳۶ و ۱۳۷، رحمۃ للعالمین ۱/۹۶۔