کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 124
نجاشی اور تمام درباریوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، جب سیّدنا جعفر رضی اللہ عنہ سورۂ مریم کی ابتدائی آیات تلاوت فرما چکے تو نجاشی نے کہا اس کلام میں وہی رنگ ہے جو سیّدنا موسیٰ علیہ السلام کی توریت میں ہے یہ دونوں ایک ہی سے کلام معلوم ہوتے ہیں ۔ قریش کے ایلچیوں نے کہا کہ یہ لوگ سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بھی مخالف ہیں ، اس بات کے کہنے سے ان کا یہ مدعا تھا کہ نجاشی شاہ حبش جو عیسائی ہے مسلمانوں سے ناراض ہو جائے گا، سیّدنا جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے فوراً جواب دیا کہ ہرگز نہیں بلکہ ((ھو عبداللّٰه و رسولہ وکلمتہ القاھا الی مریم و روح منہ)) [1] نجاشی نے کہا تمہارا یہ عقیدہ بالکل درست ہے، انجیل کا بھی یہی مفہوم ہے، نجاشی نے قریش کے ایلچیوں کو ناکام واپس کر دیا اور کہہ دیا کہ میں ان لوگوں کو ہرگز تمہارے سپرد نہ کروں گا، ساتھ ہی نجاشی نے قریش کے تمام تحفے اور ہدایا واپس کر دیئے جس سے ان کی اور بھی تذلیل ہوئی، [2]یہ واقعہ نبوت کے چھٹے سال کا ہے، قریش کو جب نجاشی کے دربار میں بھی ناکامی ہوئی تو ان کی دشمنی مسلمانوں کے ساتھ اور بھی زیادہ بڑھ گئی۔ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا: قریش مکہ عداوت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دیوانے ہو رہے تھے، ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ صفا پر یا اس کے دامن میں بیٹھے تھے کہ ابوجہل اس طرف کو آ نکلا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اوّل تو بہت سخت و سست اور ناپسندیدہ الفاظ کہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس کی بیہودہ سرائی کا کوئی جواب نہ دیا تو اس نے ایک پتھر اٹھا کر مارا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے اور خون بہنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش اپنے گھر چلے آئے، ابوجہل صحن کعبہ میں جہاں لوگ بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے آ بیٹھا۔ سیدنا امیر حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت
[1] ’’وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اور اس کا کلمہ ہیں جو اس نے مریم کی طرف القاء کیا، اور اس کی روح ہیں ۔‘‘ [2] سیرت ابن ہشام ملخصاً بہ حوالہ الرحیق المختوم … نجاشی نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی گفتگو سن کر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہنے لگا کہ ’’اللہ کی قسم! جو کچھ تم نے کہا ہے، عیسیٰ علیہ السلام اس سے اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہ تھے۔‘‘ اس پر پادریوں نے ’’ہونہہ‘‘ کی آواز لگائی۔ نجاشی نے کہا : ’’اگرچہ تم ہونہہ کہو۔‘‘ پھر اس نے مسلمانوں سے کہا : ’’جاؤ! تم لوگ میرے ملک میں امن و امان سے رہو۔ جو تمہیں گالی دے گا، اس پر تاوان لگایا جائے گا۔ مجھے گوارا نہیں کہ تم میں سے میں کسی آدمی کو ستاؤں اور اس کے بدلہ میں مجھے سونے کا پہاڑ مل جائے۔‘‘ پھر اس نے کفار کے تحائف واپس کروا دیئے اور کہا کہ ’’اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے جب مجھے میرا ملک واپس کیا تھا تو مجھ سے کوئی رشوت نہیں لی تھی کہ میں اس کی راہ میں رشوت لوں …‘‘ ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد ہم نجاشی کے پاس ایک اچھے ملک میں ایک اچھے پڑوسی کے زیر سایہ مقیم رہے۔ (حوالہ مذکورہ)