کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 121
جائے گا۔ لہٰذا ابوطالب کی حمایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت کچھ تقویت حاصل تھی، اب یہ مایوسانہ باتیں سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھر آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ کر ابوطالب کے پاس سے چشم پر آب اٹھے اور چل دیے کہ ’’چچا! میں اپنے کام کو اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا کام پورا نہ ہو جائے، یا یہی کام کرتے ہوئے میں ہلاک نہ ہو جاؤں ۔‘‘
ابوطالب پر اس کا بہت اثر ہوا، اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر واپس بلا کر کہا کہ اچھا تم ضرور اپنے کام میں مصروف رہو، جب تک میرے دم میں دم ہے میں تمہاری حمایت سے باز نہ رہوں گا، تم کو کبھی دشمنوں کے سپرد نہ کروں گا۔ [1]
حبشہ کی طرف ہجرت:
کفار قریش کو جب ان تمام کوششوں میں ناکامی ہوئی اور تبلیغ توحید کاسلسلہ برابر جاری رہا تو ان کو اب فکر ہوئی، انہوں نے دیکھا کہ جس تحریک کو ہم بچوں کا کھیل سمجھ رہے تھے وہ اب نشوونما پا کراس قدر طاقتور ہو گئی ہے کہ ان کا انسداد آسان کام نہیں رہا۔ انہوں نے اب متفقہ طور پر مخالفت پر کمر باندھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کے اندر آنے سے روک دیا، شہر کے لڑکوں اور اوباشوں کو متعین کیا کہ جہاں کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا مسلمانوں میں سے کسی کو دیکھیں ، تالیاں بجائیں ، گالیاں دیں ، راستوں اور گلی کوچوں میں چلنے پھرنے سے باز رکھیں ، باہر سے آنے والے مسافروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ملنے
دیں اور جس طرح قابو چلے اور موقع ملے ستائیں ، ضعیف مسلمانوں کو اب پورے جوش اور بڑے عزم و ہمت کے ساتھ تنگ کرنا اور ستانا شروع کر دیا، یہاں تک کہ شہر مکہ کی سر زمین مسلمانوں کے لیے تنگ ہو گئی، اور مسلمانوں کی زندگی وبال بن گئی، یہ حالت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اجازت دی کہ ملک حبش میں (جہاں عیسائی حکومت تھی) چلے جاؤ۔
چنانچہ نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینہ میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبش کے ارادہ سے مکہ چھوڑا، یہ پندرہ آدمیوں کا مختصر قافلہ رات کے وقت چھپ کر مکہ سے نکلا، شعیبہ کی بندگاہ پر اتفاقاً جہاز تیار مل گیا اور یہ لوگ جہاز میں سوار ہو کر ملک حبش میں پہنچ گئے، ان اولون المہاجرین میں قابل تذکرہ حضرات یہ تھے۔
سیّدنا عثمان بن عفان، ان کی بیوی رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیّدنا حذیفہ بن عتبہ، سیّدنا عثمان بن مظعون ، سیّدنا عبداللہ بن مسعود، سیّدنا عبدالرحمن بن عوف، سیّدنا زبیر ابن العوام، سیّدنا مصعب بن عمیر
[1] سیرت ابن ہشام بحوالہ الرحیق المختوم، صفحہ ۱۳۹ و ۱۴۰۔