کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 120
یا آسیب دکھائی دیتا ہے اور اس کے اثر سے تم ایسی ایسی باتیں کرتے ہو تو ہم اپنے کاہنوں اور حکیموں کے ذریعے علاج کرانے کو تیار ہیں ۔[1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں سن کر جواباً قرآن کریم کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو تمہاری طرف اپنا رسول بنا کر بھجا ہے، میں نے اللہ تعالیٰ کے احکام تم کو پہنچا دیئے ہیں ، اگر تم میری تعلیمات کو قبول کر لو گے تو تمہارے لیے دین و دنیا کی بہتری کا موجب ہو گا، اگر انکار پر اصرار کرو گے تو میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کروں گا کہ تمہارے لیے کیا حکم صادر فرماتا ہے۔
یہ سن کر کفار نے کہا کہ اچھا اگر تم اللہ تعالیٰ کے رسول ہو تو ان پہاڑوں کو ملک عرب سے ہٹا دو، اور ریگستان کو سر سبز بنا دو، ہمارے باپ دادا کو زندہ کر دو اور ان میں قصی بن کلاب کو ضرور زندہ کرو، اگر قصی بن کلاب نے زندہ ہو کر تم کو سچا مان لیا اور تمہاری رسالت کو قبول کر لیا تو ہم بھی تم کو رسول اللہ تسلیم کر لیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں ان کاموں کے لیے رسول نہیں بنایا گیا میرا کام یہ ہے کہ تم کو اللہ تعالیٰ تعالیٰ کے احکام جو مجھ پر نازل ہوتے ہیں سنادوں اوراچھی طرح سمجھا دوں ، میں اپنے اختیار سے خود کچھ نہیں کر سکتا، اس قسم کی باتیں ہونے کے بعد سردارن قریش ناراض اور برا فروختہ ہو کر اٹھے اور ابوطالب کو بھی مقابلہ اور مخالفت کے لیے چیلنج دے کر چل دیئے۔
سردارن قریش کے چلے جانے کے بعد ابوطالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ بھتیجے! میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور اپنے اندر قریش کے مقابلہ کی طاقت نہیں پاتا تم مجھے ایسی محنت میں مبتلا نہ کرو جو میری طاقت و استطاعت سے بڑھ کر ہو، مناسب یہ ہے کہ تم اپنے دین کا اعلان اور بتوں کی علانیہ برائیاں بیان کرنا ترک کر دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ چچا اگر میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں اپنے کام سے باز نہیں رہ سکتا۔
ابوطالب کی باتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ شبہ گزرا کہ اب یہ میری حمایت سے دست بردار ہونا چاہتے ہیں ، ابوطالب سردارن مکہ میں سب سے زیادہ عزت و جاہت رکھتے اور قبیلہ بنی ہاشم کے مسلمہ سردار سمجھے جاتے تھے، ان کی وجہ سے مخالفین آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرتے ہوئے ججھکتے تھے اور ان کو خطرہ تھا کہ اگر بنو ہاشم سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد پر اٹھ کھڑے ہوئے تو معاملہ بہت ہی نازک ہو
[1] بجائے اس کے کہ کفار و مشرکین اپنی اصلاح کرتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی اور دعوت حق کو قبول کرتے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو زدہ اور جناتی اثرات کا حامل مریض سمجھنا شروع کر دیا (معاذ اللہ) کیسی عجیب بات ہے کہ مریض اپنے معالج کو ہی مریض سمجھ رہا تھا، اس سے بڑھ کر دیوانگی اور کیا ہو سکتی ہے!