کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 119
وَّثَمُوْدَ﴾ [1] تو عتبہ کا رنگ فق ہو گیا، اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا کہ ایسا نہ کہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور سجدہ سے فارغ ہو کر کہا کہ تم نے میرا جواب سن لیا۔
عتبہ وہاں سے اٹھا اور قریش کے پاس آ کر کہا کہ یہ میری رائے ہے کہ اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور تم بالکل غیر جانبدار ہو جاؤ، اگریہ ملک عرب پر غالب آگیا تو چونکہ یہ تمہارا بھائی ہے اس کی کامیابی تمہاری کامیابی ہو گی اور اگر یہ تباہ ہو گیا تو تم سستے چھوٹ جاؤ گے،یہ سن کر قریش نے عتبہ سے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تم پر بھی جادو کر دیا ہے، عتبہ نے کہا جو تمہارا جی چاہے کرو اور کہو میں نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا۔[2]
ابوطالب کی خدمت میں قریش کا وفد:
جب عتبہ کی کوشش ناکام ثابت ہوئی تو عتبہ شیبہ، ابوالبختری، اسود، ولید اور ابوجہل وغیرہ اشخاص کا ایک وفد ابوطالب کی خدمت میں پہنچا اور شکایت کی کہ تمہارا بھتیجا ہمارے بتوں کو برا کہنے سے باز نہیں آنا چاہتا تم اس کو سمجھاؤ اور اس حرکت سے باز رکھو۔
ابوطالب نے اس وفد کو معقول جواب دیئے اور ان کو توجہ دلائی کہ تم لوگ بھی ایذا سانیوں میں حد سے بڑھے جاتے ہو۔[3]
اس روز تو یہ لوگ ابوطالب کے پاس سے اٹھ کرچلے آئے لیکن دوسرے روز مشورہ کر کے پھر پہنچے۔ ان کے آنے پر ابوطالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مکان پر ان کے سامنے بلوایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں گفتگو شروع ہو گئی، قریش کے سرداروں نے وہی باتیں اس مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پھر پیش کیں جو اس سے پہلے عتبہ تنہا حاضر ہو کر پیش کرچکا تھا، انہوں نے کہا کہ :
’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت بعض ضروری باتوں کے لیے بلوایا ہے، واللہ! کوئی شخص اپنی قوم پر اتنی مشکلات نہیں لایا ہو گا جس قدر مشکلات میں تم نے قوم کو مبتلا کردیا ہے،
اگر تم اپنے اس نئے دین کے ذریعہ مال و دولت جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم اتنا مال جمع کیے دیتے ہیں کہ کسی دوسرے کے پاس نہ نکلے۔ اگر شرف و عزت کی خواہش ہے تو ہم ابھی تم کو اپنا سردار تسلیم کیے لیتے ہیں ، اگر حکومت و سلطنت کی خواہش ہے تو تم کو ملک عرب کا بادشاہ بنانے کے لیے تیار ہیں ، اگر تم کو کوئی جن
[1] ’’پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو کہہ دو کہ میں تم کو (ایسی) چنگھاڑ (کے عذاب) سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر چنگھاڑ (کا عذاب آیا تھا)۔‘‘ (حم السجدۃ ۴۱ : ۱۳)
[2] سیرت ابن ہشام، صفحہ ۱۳۷ و ۱۳۸۔
[3] سیرت ابن ہشام، بحوالہ الرحیق المختوم، ص ۱۱۶۔