کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 116
ابوجہل ان کو گوناگوں عذاب پہنچاتا تھا سیّدنا سمیہ رضی اللہ عنہا کو ظالم ابوجہل نے نہایت بے دردی سے نیزہ مار کر شہید کر دیا تھا۔ سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو ابوجہل[1] نے اس قدر مارا کہ مارتے مارتے اندھا کر دیا تھا۔ غرض بہت سے غلام اورلونڈیاں تھیں جن کو ایسی ایسی سخت و شدید سزائیں دی گئیں کہ ان کے تصور سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ، [2] مگر اسلام ایسی زبردست طاقت کا نام ہے کہ سنگ دل کفار کسی کو بھی مرتد بنانے میں کامیاب نہ ہوئے۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان قبیلہ بنی امیہ کے ایک امیر آدمی تھے مسلمان ہو جانے کے سبب ان کے چچا نے ان کو رسیوں سے باندھ کر خوب مارا اور قسم قسم کی جسمانی ایذائیں پہنچائیں ۔[3] سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کو ان کا چچا چٹائی میں لپیٹ کر ان کو ناک میں دھواں دیا کرتا تھا۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو قریش نے قرآن پڑھتے ہوئے سن کر اس قدر مارا کہ مارتے مارتے بیہوش کر کے زمین پر ڈال دیا۔ قریب تھا کہ وہ ان کو جان سے مار ڈالتے، مگر سیّدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے قریش کو یہ کہہ کر روکا کہ اس شخص کا قبیلہ بنو غفار تمہارے تجارتی قافلوں کے راستوں میں آباد ہے، وہ تمہارے ناک میں دم کر دیں گے۔[4] سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بھی اسی طرح صحن کعبہ میں مارتے مارتے بیہوش کردیا،[5] سیّدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ بن ارت کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں ۔ ایک مرتبہ خوب دھکتے ہوئے انگارے زمین پر بچھا کر ان کو ان انگاروں پر چت لٹا دیا، اورایک شخص ان کی چھاتی پر بیٹھ گیا کہ کروٹ نہ بدل سکیں ، ان کی کمر کی تمام کھال اور گوشت جل کر کباب ہو گیا،[6] بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو گائے یا اونٹ کے کچے چمڑے میں لپیٹ کر اور باندھ کر ڈال دیتے… بعض کو لوہے کی زرہ پہنا کر جلتی ہوئی آگ اور جلتے ہوئے انگاروں میں ڈال دیتے۔[7]
[1] سیرت ابن ہشام مترجم، صفحہ ۱۵۴، الرحیق المختوم، صفحہ ۱۲۹۔ [2] یہ سارا ظلم و جور اور فساد بدبخت ابوجہل کا کیا دھرا تھا۔ وہ قریش کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتا رہتا اور دن رات انہی سازشوں کے تانے بانے بنتا رہتا تھا۔ اس سب کچھ میں اس خبیث کا مرکزی کردار تھا۔ [3] سیرت ابن ہشام، صفحہ ۱۵۳، رحمت للعالمین ۱ : ۵۷۔ [4] رحمت للعالمین ۱ : ۵۷۔ [5] صحیح بخاری۔ کتاب المناقب، حدیث ۳۵۲۲، طبقات ابن سعد صفحہ ۲۲۸ و ۲۲۹۔ [6] سیرت ابن ہشام، صفحہ ۱۵۰ و ۱۵۱۔ [7] رحمت للعالمین ۱ : ۸۳۔