کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 112
خدمات انجام دیں ، سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا رسوخ اور حلقہ احباب قریش مکہ میں بہت وسیع تھا، ان کے اثر اور ترغیب سے سیّدنا عثمان بن عفان ، سیّدنا طلحہ بن عبیداللہ، سیّدنا سعد بن ابی وقاص، سیّدنا عبدالرحمن بن عوف، سیّدنا زبیر بن العوام، ایمان لائے پھر سیّدنا ابوعبیدہ ابن الجراح، سیّدنا ابوسلمہ ، عبدالاسد بن ہلال، سیّدنا عثمان بن مظعون، سیّدنا قدامہ بن مظعون، سیّدنا سعید بن زید ، سیدہ فاطمہ ہمشیرہ سیّدنا عمر بن خطاب، زوجہ سیّدنا سعید رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ بھی دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئے، ان حضرات کے بعد سیّدنا سعد بن ابی وقاص کے بھائی سیّدنا عمیر ، سیّدنا عبداللہ بن مسعود ، سیّدنا جعفر رضی اللہ عنہم اجمعین بن ابوطالب وغیرہ ایمان لائے، اور مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت تیار ہو گئی جس میں عورت، مرد جوان، بوڑھے اور بچے شامل تھے، مشرکین کے خوف سے مسلمان مکہ سے باہر پہاڑ کی گھاٹی میں جا کر نمازیں ادا کیا کرتے تھے۔ تین سال تک اسلام کی تبلیغ اسی طرح چپکے چپکے ہوتی رہی اور لوگ رفتہ رفتہ شرک اور بت پرستی سے بیزار ہو ہو کر اسلام میں داخل ہوتے رہے، اس تین سال کے عرصہ میں قریش کی ہر مجلس اور ہر صحبت میں اس نئے دین کا چرچا اور تذکرہ ہوتا تھا، مسلمان چونکہ خود اپنے اسلام کا اعلان نہیں کرتے تھے لہٰذا بہت سے مسلمانوں کو آپس میں بھی ایک دوسرے کے مسلمان ہونے کا علم نہ ہوتا تھا۔ قریش ابتداً اس تحریک اسلام کو کچھ زیادہ اہم اور خطرناک نہیں سمجھتے تھے لہٰذا تمسخر اور استہزاء اور زبانی طور پر ایذا رسانی کرتے تھے، بہ حیثیت مجموعی قوم کی قوم در پے استیصال نہیں ہوئی تھی۔ قریش میں بعض بعض ایسے شرارت پسند لوگ بھی تھے کہ وہ قابو پا کر مسلمانوں کو ایذائے جسمانی بھی پہنچاتے تھے۔ ایک مرتبہ سیّدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ بمع چند مسلمانوں کے کسی گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک چند مشرکین مکہ اس طرف آ نکلے اور انہوں نے مسلمانوں کو سختی اور درشتی کے ساتھ اس عبادت الٰہی سے روکا، سیّدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے ان کا مقابلہ کیا اور ایک کافر سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ کی تلوار سے زخمی ہوا۔ یہ سب سے پہلی تلوار تھی جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں چلی۔[1] ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کسی گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے، اتفاقاً ابوطالب اس طرف آ نکلے،اور خاموش کھڑے ہوئے دیکھتے رہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ختم کر چکے تو پوچھا کہ یہ کیا مذہب ہے جو تم نے اختیار کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہ دین ابراہیمی ہے، ساتھ ہی ابوطالب سے کہا کہ آپ بھی اس دین کو قبول کر لیں ، ابوطالب نے کہا کہ میں تو اپنے باپ دادا کا مذہب
[1] سیرت ابن ہشام، صفحہ ۱۲۸ و ۱۲۹۔