کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 110
کا خوف ہو گیا ہے۔) [1] خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے تاریخی الفاظ: سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں فرمایا کہ ((کلا ابشر فواللّٰه لا یحزنک اللّٰه ابداً انک لتصل الرحم و تصدق الحدیث و تحمل الکل و تکسب المعدوم و تقریٔ الضیف و تعین علی نوائب الحق۔)) (نہیں نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش ہونا چاہیے، واللہ! اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ صلہ رحمی کرتے ہیں اور ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور ان کے اخراجات برداشت کرتے ہیں جن کے پاس اپنے لیے کافی نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ تمام اخلاقی خوبیاں موجود ہیں جو لوگوں میں نہیں پائی جاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہمان نواز ہیں اور حق باتوں اور نیک کاموں کی وجہ سے اگر کسی پر کوئی مصیبت آ جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مددگار بن جاتے ہیں ) اس تسلی و تشفی دینے کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو اب بوڑھے ہو گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ بن نوفل کے سامنے تمام کیفیت بیان کی، ورقہ نے سن کر کہا کہ یہ وہی ناموس اکبر ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا، کاش! میں جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا (اومخرجونی) ’’کیا قوم مجھے نکال دے گی؟ ورقہ بن نوفل نے کہا ہاں ! دنیا میں جو کوئی رسول آیا اور اس نے توحید کی تعلیم پیش کی اس کے ساتھ عداوت و دشمنی کا برتاؤ ابتداء میں ہوا ہے۔[2] اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدستور غار حرا میں تشریف لے جاتے رہے، چند روز تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی وحی نازل نہ ہوئی اس کو زمانۂ فتر کہتے ہیں ۔ آخر ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا سے گھر کو تشریف لا رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی فرشتہ کو دیکھا، [3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیکھ کر پھر سہم گئے اور گھر آ کر کپڑا اوڑھ کر لیٹ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں
[1] صحیح بخاری، کتاب الوحی، حدیث ۳۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بدء الوحی۔ [2] صحیح بخاری، کتاب الوحی، حدیث ۳۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بدء الوحی۔ [3] صحیح بخاری کی روایت کے مطابق وہ فرشتہ آسمان و زمین کے درمیان میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ ملاحظہ ہو کتاب الوحی، حدیث ۴۔