کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 109
طلوع شمس
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چالیس سال کی ہو چکی تھی آفتاب ہدایت و رسالت طلوع ہوتا ہے، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب وہ روحانی قوتیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت میں ودیعت کی تھیں ، عبادت و ریاضت اور اس خلوت سے نشوونما پا کر تحمل وحی اور برداشت منصب نبوت کے قابل ہو گئیں تو ایک روز غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فرشتہ نمودار ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر کہا:
’’اقراء‘‘(پڑھ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ’’ما انا بقاری‘‘ (میں تو پڑھنا نہیں جانتا) پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر زور سے بھینچا پھر چھوڑ دیا اور کہا ’’اقراء‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر جواب دیا ، کہ ’’ما انا بقاری‘‘ اس نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کرزور سے بھینچا پھر چھوڑ دیا اور کہا اقراء آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا ’’ما انا بقاری‘‘ فرشتہ نے پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زور سے بھینچا اور پھر چھوڑ کر کہا:
﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ﴾ (العلق :۱ تا۵)
’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے ہر شے کو پیدا کیا، اور انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا رب بڑا بزرگ ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ جانتا نہ تھا۔‘‘
یہ کہہ کر فرشتہ تو غائب ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے خوف زدہ حالت میں گھر تشریف لائے اور خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ’’زملونی زملونی‘‘ (مجھے کمل اوڑھاؤ) سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمل اوڑھا دیا اور وہ بھی گھبرائیں کہ یہ کیا بات ہے، جب تھوڑی دیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ سکون ہوا تو آپ نے تمام کیفیت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو سنائی اور کہا کہ ’’لقد خشیت علی نفسی‘‘ (مجھے تو اپنی جان