کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 106
ہو، کون ہیں ؟ زید رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں یہ میرے والد اور چچا ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تم کو لینے آئے ہیں میری طرف سے تم کو اجازت ہے کہ ان کے ہمراہ چلے جاؤ۔ زید نے کہا کہ میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر ہرگز جانا نہیں چاہتا، زید رضی اللہ عنہ کے باپ حارث نے خفا ہو کر زید رضی اللہ عنہ سے کہا تو غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتا ہے؟، زید نے کہا ہاں ، میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ بات دیکھی ہے کہ میں اپنے باپ اور تمام کائنات کو کبھی ان پر ترجیح نہیں دے سکتا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زید رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سن کر اٹھے، اور زید کو ہمراہ لے کر فوراً خانہ کعبہ میں گئے اور بلند آواز سے فرمایا کہ لوگو! گواہ رہو کہ آج سے میں زید رضی اللہ عنہ کو آزاد کرتا اور اپنا بیٹا بناتا ہوں ، یہ میرا وارث ہو گا اور میں اس کا وارث ہوں گا۔ زید رضی اللہ عنہ کے باپ اور چچا دونوں اس کیفیت کو دیکھ کر خوش ہو گئے اور زید رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بخوشی چھوڑ کر چلے گئے، اس روز سے زید بجائے زید بن حارث کے زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے پکارے جانے لگے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب ہجرت کے بعد یہ حکم نازل ہوا کہ منہ بولا بیٹا بنانا جائز نہیں تو زید رضی اللہ عنہ کو پھر زید بن حارث رضی اللہ عنہ کے نام سے پکارنے لگے، [1] مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و شفقت زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہی رہی جو پہلے تھی بلکہ اس میں اور اضافہ ہوتا رہا۔ اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و خصائل کس قسم کے تھے۔ توجہ الی اللہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بتیس یا تینتیس سال کی ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو توجہ الی اللہ اور خلوت گزینی کا شوق بڑھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک روشنی اور چمک سی نظر آیا کرتی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس روشنی کو دیکھ کر مسرور ہوا کرتے تھے، اس روشنی میں کوئی صورت یا آواز نہیں ہوتی تھی۔ عرب کی مشرکانہ مراسم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ نفرت تھی۔ ایک دفعہ مکہ کے بعض مشرکوں نے کسی جلسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ کھانا رکھا جو بتوں کے چڑھاوے کا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھانا زید بن عمرو بن نفیل کی طرف سرکا دیا، انہوں نے بھی وہ کھانا نہیں کھایا، اور ان مشرکوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ ہم بتوں کے چڑھاوے کا کھانا نہیں کھایا کرتے، [2]یہ وہی زید بن عمرو بن نفیل ہیں جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے جو سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے چچا تھے۔
[1] سورۃ الاحزاب، آیت ۵۔ صحیح بخاری، کتاب التفسیر، حدیث ۴۷۸۲۔ [2] صحیح بخاری، کتاب مناقب الانصار، حدیث ۳۸۲۶۔