کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 105
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے والے بہت تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دانائی خوش اطواری ، راست کرداری اور دیانت و امانت کا تمام ملک میں چرچاتھا، تجارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشہ تھا، اور سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے شادی کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ البالی سے زندگی بسر کرتے تھے۔ ایک مرتبہ قحط کے ایام تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب عیال دار آدمی تھے، ان کی عزت و عظمت بزرگ خاندان اورسردار بنی ہاشم ہونے کے سبب بہت تھی مگر افلاس و تنگی کے ساتھ ان کی گزر اوقات ہوتی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب کی عسرت و تنگی کا حال دیکھ کراپنے دوسرے چچا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آج کل قحط کا زمانہ ہے اور ابوطالب کا کنبہ بڑا ہے، مناسب یہ ہے کہ ان کے ایک لڑکے کو آپ اپنے گھر لے آئیں اور ایک کو میں لے آؤں ، اس طرح ان کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا، عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے اس مشورہ کو پسند کیا، اور دونوں ابوطالب کی خدمت میں پہنچے اور اپنی خواہش بیان کی، ابوطالب نے کہا کہ عقیل کو تو میرے پاس رہنے دو اور باقیوں کو اگر تمہاری خواہش ہے تو لے جاؤ چنانچہ جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کو تو عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اپنے گھر لے گئے، اور علی ابن ابوطالب رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر لے آئے۔ یہ واقعہ اسی سال کا ہے جس سال تعمیر کعبہ ہوئی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پینتیس سال کی تھی، اور سیّدنا علی کرم اللہ وجہ کی عمر پانچ سال کے قریب تھی، مگر یہ تعمیر کعبہ کے بعد واقعہ سے پہلے کا ہے۔ زید بن حارث رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت: سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حرام کہیں سے ایک غلام خرید کر لائے تھے، انہوں نے وہ اپنی پھوپھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی نذر کیا، سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے اس غلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نذر کیا، یہی غلام زید بن حارث تھے، یہ درحقیقت ایک آزاد خاندان کے لڑکے تھے، کسی لوٹ مار میں قید ہو کر اور غلام بنا کر فروخت کر دیئے گئے تھے، کچھ دنوں کے بعد زید رضی اللہ عنہ کے باپ حارث اور ان کے چچا کعب کو پتہ چلا کہ زید مکہ میں کسی شخص کے پاس بطور غلام رہتے ہیں ، وہ دونوں مکہ میں آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عاجزانہ درخواست پیش کی کہ زید رضی اللہ عنہ کو آزاد کر کے ہمارے سپرد کر دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ان کی درخواست منظور فرمالی اور کہا کہ اگر زید تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے تو میری طرف سے اس کو اجازت ہے۔ چنانچہ زید رضی اللہ عنہ بلوائے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ان دونوں شخصوں کو تم پہچانتے