کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 104
داخل ہو رہے تھے سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی ’’الامین الامین‘‘ پکارا اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر ہم رضا مند ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مجلس میں داخل ہوئے تو سب نے معاملہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کے حق میں چاہیں فیصلہ کر دیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر رضا مند ہیں ۔ یہ ذرا سوچنے اور غور کرنے کا موقع ہے کہ جس عزت اور شرف کو ہر قبیلہ حاصل کرنا چاہتا تھا اورخون سے بھرے ہوئے پیالے میں انگلیاں ڈال ڈال کر اس زمانہ کی رسم کے موافق مرنے مارنے پر شدید و غلیظ قسمیں کھا چکے تھے اس عزت و شرف کے معاملہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کرنے میں سب مطمئن ہیں جو دلیل اس امر کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت اور منصف مزاجی پر سب ایمان لائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ سے آگاہ ہو کر اسی وقت ذرا سی دیر میں جھگڑے کو ختم کردیا اور تمام بڑھے بڑھے اور تجربہ کار سردارن قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذہانت، قوت فیصلہ اور منصف مزاجی کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور سب نے بالا تفاق ’’احسنت و مرحبا‘‘ کی صدائیں بلند کیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فیصلہ کیا کہ ایک چادر بچھائی، اس پر حجراسود اپنے ہاتھ سے رکھ دیا۔ پھر ہر ایک قبیلہ کے سردار سے کہا کہ چادر کے کنارے کو پکڑ لو، چنانچہ تمام سردار قریش نے مل کر اس چادر کے کنارے چاروں طرف سے پکڑ کر پتھر کو اٹھایا، جب پتھر اس مقام پر پہنچ گیا جہاں اس کو نصب کرنا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر سے اٹھا کر وہاں نصب کر دیا، کسی کو کوئی شکایت باقی نہ رہی اور سب آپس میں رضا مند رہے۔ اس واقعہ میں عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس، اسود بن مطلب بن اسد بن عبدالغریٰ، ابوحذیفہ بن مغیرہ بن عمر بن مخزوم اور قیس بن عدی السہمی چار شخص بہت پیش پیش تھے اور کسی طرح دوسرے کے حق میں معاملہ کو چھوڑنا نہ چاہتے تھے۔ اس فیصلہ سے چاروں بہت خوش اور مسرور تھے، [1]اگر ملک عرب میں یہ جنگ چھڑ جاتی تو یقینا یہ تمام ان لڑائیوں سے زیادہ ہیبت ناک اور تباہ کن جنگ ثابت ہوتی جو اب تک زمانۂ جاہلیت میں ہو چکی تھیں ، جس زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حجراسود والے جھگڑے کا فیصلہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۳۵ سال کی تھی۔ غریبوں کی کفالت: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور قبولیت مکہ میں غالباً سب پر فائق تھی۔ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن نہ تھا،
[1] سیرت ابن ہشام، صفحہ ۹۹ تا ۱۰۱۔ نیز دیکھیے تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت ﴿وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ﴾ (البقرۃ : ۲:۱۲۷)