کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 103
قائم ہو گئی جس میں بنو ہاشم، بنو المطلب ، بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تیمم شامل ہوئے اس انجمن کے ہر ایک ممبر کو یہ اقرار کرنا پڑتا تھا کہ (۱) ہم ملک سے بدامنی دور کریں گے (۲) مسافروں کی حفاظت کیا کریں گے (۳) غریبوں کی امداد کیا کریں گے (۴) زبردستوں کو ظلم کرنے سے روکیں گے اس انجمن کے ذریعہ مخلوق خدا کو بہت کچھ منافع پہنچنے لگا تھا۔ زمانۂ نبوت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اگر آج بھی کوئی اس معاملہ کے نام سے مجھ کو بلائے اور مدد طلب کرے تو میں اس کو جواب دوں گا۔[1] قبائل قریش میں آپ کا حکم مقرر ہونا: خانہ کعبہ میں کسی بداحتیاطی کے سبب آگ لگ گئی تھی جس کے صدمہ سے دیواریں بھی جا بجا شق ہو گئی تھیں ، قریش نے ارادہ کیا کہ اس عمارت کو منہدم کر کے پھر ازسر نو تعمیر کیا جائے، اس رائے پر تو سب کا اتفاق ہو گیا لیکن کھڑی ہوئی عمارت کو منہدہم کرنے پر کوئی آمادہ نہ ہوتا تھا، اور سب ڈرتے تھے، آخر سرداران قریش میں سے ولید بن مغیرہ نے اس کام کو شروع کر دیا، پھر رفتہ رفتہ تمام قبائل اس انہدام کے کام میں شریک ہو گئے۔ اسی زمانہ میں بندرگاہ جدہ کے قریب ایک جہاز ٹوٹ کر ناکارہ ہو گیا تھا، اس کا حال معلوم ہوا تو قریش نے اپنے معتمد آدمیوں کو بھیج کر اس جہاز کی لکڑی خرید لی اور کار آمد لکڑیاں اونٹوں پر لاد کر مکہ میں لے آئے، یہ لکڑی خانہ کعبہ کی چھت کے لیے خریدی گئی تھی، کعبہ کی دیواروں کو منہدم کرتے ہوئے جب تعمیر ابراہیمی کی بنیادوں تک پہنچے تو پھر تعمیر شروع کر دی۔ چونکہ چھت کے لیے پوری لکڑی نہ تھی اس لیے خانہ کعبہ کو ابراہیمی بنیادوں پر پورا تعمیر نہیں کیا بلکہ ایک طرف تھوڑی جگہ چھوڑ دی۔ اب تعمیر بلند ہوتے ہوتے اس مقام تک پہنچ گئی کہ حجراسود رکھا جائے، قبائل قریش میں ایک سخت فساد اور جنگ عظیم کا سماں پیدا ہو گیا یہ جھگڑا اس بات پر ہوا کہ ہر قبلہ کا سردار یہ چاہتا تھا، کہ حجر اسود کو میں اپنے ہاتھ سے رکھوں ، قبائل میں ایک دوسرے کے خلاف ضد پیدا ہو گئی اور ہر طرف سے تلواریں کھنچ گئیں ، بنو عبدالدار مرنے اور مارنے پر قسم کھا بیٹھے، اس جھگڑے میں پانچ روز تک تعمیر کا کام بند رہا۔ آخر قبائل قریش خانہ کعبہ میں جمع ہوئے اور ایک مجلس منعقد کی گئی، اس مجلس میں ابوامیہ بن مغیرہ نے تجویز پیش کی کہ جو شخص خانہ کعبہ میں سب سے پہلے داخل ہوتا ہوا نظر آئے اسی کو حکم مقرر کیا جائے وہ جو فیصلہ کرے سب اس پر رضا مند ہو جائیں ، لوگوں نے نگاہ اٹھا کر جو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] سیرت ابن ہشام و مختصر السیرۃ شیخ عبداللہ بحوالہ الرحیق المختوم، صفحہ ۹۰۔