کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 102
تھے، نکاح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس سال کی اور سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کی عمر چالیس سال کی تھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کے بطن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں ۔[1]
صادق اور الامین کا خطاب:
نہ صرف مکہ معظمہ بلکہ تمام عرب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیکی، خوش اطواری، دیانت، امانت اور راست بازی کی اس قدر شہرت ہو گئی تھی کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نام لے کر نہیں ، بلکہ الصادق یا الامین کہہ کر پکارتے تھے، تمام ملک عرب میں ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات تھی جو الصادق یا الامین کی مشار الیہ سمجھی جاتی تھی۔ اور انھی ناموں سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے، اور یاد کرتے تھے، مسز اینی بیسنٹ ہندوستان میں تھیوسوفیکل سوسائٹی کی پیشوا اور بڑی مشہور انگریز عورت ہے وہ لکھتی ہے کہ:
’’پیغمبر اعظم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جس بات نے میرے دل میں ان کی عظمت و بزرگی قائم کی ہے وہ ان کی وہ صفت ہے جس نے ان کے ہم وطنوں سے الامین (بڑا دیانتدار) کا خطاب دلوایا، کوئی صفت اس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی اور کوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے قابل اتباع نہیں ، ایک ذات جو مسلم صدق ہو اس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے ایسا ہی شخص اس قابل ہی کہ پیغام حق کا حامل ہو۔‘‘
تجدید حلف الفضول:
کسی پرانے زمانہ میں ملک عرب کے بعض شخصوں نے مل کر آپس میں یہ عہد کیا تھا کہ ہم ہمیشہ مظلوم کی طرف داری کریں گے اور ظالم کا مقابلہ کریں گے، اس جماعت میں جس قدر اشخاص شامل تھے اتفاقاً ان سب کے ناموں میں فضل کا لفظ آتا تھا، اسی لیے ان کے اس عہد کو حلف الفضول کے نام سے تعبیر کرنے لگے یہ جماعت اب ملک عرب میں باقی نہ رہی تھی مگر اس کا تذکرہ لوگوں کی زبان پر آ جاتا تھا۔
حرب فجار کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس تحریک کو پھر از سر نو تازہ کیا جائے۔ چنانچہ بعض اشخاص نے عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہو کر قسم کھائی کہ ہم ہمیشہ ظالم کا مقابلہ کریں گے اور مظلوم کی مدد کریں گے۔
اس قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک تھے کچھ مدت بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر قبیلوں کے سرداروں اور سمجھدار لوگوں کو ملک کی بدامنی، مسافروں کے لٹنے اور ضعیفوں اور غریبوں پر زبردستوں اور امیروں کے ظلم کرنے کا حال بیان فرما کر ان سب باتوں کی اصلاح کے لیے آمادہ کیا، بالآخر ایک انجمن
[1] سیرت ابن ہشام، صفحہ ۹۸، ۹۹۔