کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 101
جائیں اور بطور کارندہ خدمات انجام دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کے مشورہ کے بعد اس خواہش کو منظور کر لیا اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے معقول معاوضہ مقرر کر دیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مہتمم مال تجارت ہو کر شام کی طرف روانہ ہوئے اس سفر میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کا غلام میسرہ اور خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ایک عزیز خزیمہ ابن حکیم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔
شام کا دوسراسفر:
یہ تجارتی قافلہ جس کے ہمراہ آپ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال کے روانہ ہوئے تھے ملک شام میں داخل ہو کر ایک صومعہ کے قریب ٹھہرا، اس صومعہ میں ایک راہب رہتا تھا جس کا نام نسطورا تھا، نسطورا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو اپنے صومعہ سے بعض کتاب سماویہ لے کر آیا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اور چہرے کی دیکھ بھال شروع کی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا کبھی کتب سماویہ کو پڑھتا اور مقابلہ کرتا، اس عجیب کیفیت کو دیکھ کر خزیمہ کے دل میں شک پیدا ہوا اور اس نے بلند آواز سے یا ’’آل غالب‘‘ کہا یعنی آل غالب جلدی مدد کو پہنچو، یہ آواز سن کر قافلہ کے تمام قریش دوڑ پڑے۔
نسطورا اس طرح قریش کو آتے دیکھ کر وہاں سے بھاگا اور اپنے صومعہ کی چھت پر جا بیٹھا۔ وہاں سے قافلہ والوں کو بتایا کہ خطرہ کی کوئی بات نہیں تھی میں اس شخص کا جو تمہارے ساتھ ہے کتب سماویہ کو دیکھ دیکھ کر معائنہ کر رہا تھا، نبی آخرالزماں کے جو جو علامات اور خط و خال ہماری کتابوں میں لکھے ہیں وہ سب اس میں موجود ہیں ، یہ سن کر سب کو اطمینان ہوا۔ اس سفر میں بھی قافلہ کا مال بہت منافع سے فروخت ہوا، کہا جاتا ہے کہ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی مرتبہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال لے کر بحرین یمن اور شام کی طرف گئے، ہر مرتبہ تجارت میں خوب نفع ہوا۔[1]
نکاح :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت، امانت، خوش اخلاقی، پاکبازی، شرافت اور نجابت وغیرہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے پوشیدہ نہ تھیں ، اگرچہ مکہ کے شرفاء و امراء میں سے ہر ایک سیدہ خدیجۃ الکبریٰ سے نکاح کا آرزو مند تھا مگر انہوں نے خود نفیسہ نامی عورت کے ذریعہ اور بہ روایت دیگر عاتکہ بن عبدالمطلب کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شادی کا پیغام بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب نے بھی اس رشتہ کو منظور کر لیا، ابوطالب ہی نے خطبہ نکاح پڑھا، اور اس مجلس نکاح میں عمر بن اسد اور ورقہ بن نوفل وغیرہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے تمام قریبی رشتہ دار، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار سب موجود
[1] سیرت ابن ہشام، صفحہ ۹۸۔