کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 96
نتیجہ ہے اس سے استغفار کرو۔ میں نے کلمات استغفار دہرانے شروع کئے۔ وہ اندھیرے فورا کافور ہو گئے اور ان کی بجائے ایسا نور چمکا کہ اس نے دوپہر کی روشنی کو مات کر دیا۔ اس وقت سے میری حضرت امام صاحب رحمہ اللہ سے حسن عقیدت اور زیادہ بڑھ گئی۔ اور میں ان شخصوں سے جن کو حضرت امام صاحب سے حسن عقیدت نہیں ہے کہا کرتا ہوں کہ میری اور تمہاری مثال اس آیت کی مثال ہے کہ حق تعالیٰ منکرین معارج قدسیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے فرماتا ہے افتما رونہ علی مایری۔ میں نے جو کچھ عالم بیداری اور ہشیاری میں دیکھ لیا اس میں مجھ سے جھگڑا کرنا بے سود ہے۔ ہذا واللّٰہ وبی الہدایتہ۔
خاتمتہ الکلام: اب میں اس مضمون کو ان کلمات پرختم کرتا ہوں اور اپنے ناظرین سے امید رکھتا ہوں کہ وہ بزرگان دین سے خصوصا ائمہ متبوعین رحمہ اللہ سے حسن ظن رکھیں ۔ اور گستاخی اور شوخی اور بے ادبی سے پرہیز کریں ۔ کیونکہ اس کا نتیجہ ہر دو جہاں میں موجب خسران و نقصان ہے۔ نسئل اللّٰہ الکریم حسن الظن والتادب مع الصالحین ونعوذ باللّٰہ العظیم من سوء الظن بھم والوقیعۃ فیہم فانہ عرق الرفض[1] والخروج وعلامۃ المارقین ولنعم ماقیل
از خدا خواہیم توفیق ادب
بے ادم محروم شد از لطف رب
خاک پائے علماء متقدمین و متاخرین حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی
[1] مولانا ثناء اللہ مرحوم امرتسری نے مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں میں کانپور میں مولانا احمد حسن صاحب کانپوری سے علم منطق کی تحصیل کرتا تھا۔ اختلاف مذاق و مشرب کے سبب احناف سے میری گفتگو رہتی تھی۔ ان لوگوں نے مجھ پر یہ الزام تھوپا کہ تم اہل حدیث لوگ ائمہ دین کے حق میں بے ادبی کرتے ہو۔ میں نے اس کے متعلق حضرت میاں صاحب مرحوم دہلوی یعنی شیخ الکل حضرت سید نذیر حسین صاحب مرحوم سے دریافت کیا تو آپ نے جواب میں کہا کہ ہم ایسے شخص کو جو ائمہ دین کے حق میں بے ادبی کرے چھوٹا رافضی جانتے ہیں ۔ علاوہ بریں میاں صاحب مرحوم معیار الحق میں حضرت امام صاحب کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں اما منا وسیدنا ابو حنیفۃ النعمان افاض اللّٰہ علیہ شا ابیب العفو والغفران (۲) نیز فرماتے ہیں کہ مجتہد ہونا اور متبع سنت اور متقی اور پرہیز گار ہونا کافی ہے ان کے فضائل میں اور آیہ کریمہ ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقکم زینت بخش مراتب ان کے لئے ہے‘‘ (ص۵)