کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 80
رکھ دیا ہے اور آپ کی زندگی کے ہر علمی اور عملی شعبہ اور قبولیت عامہ اور غنائے قلبی اور احکام و سلاطین سے بے تعلقی وغیرہ فضائل میں سے کسی بھی ضروری امر کو چھوڑ کر نہیں رکھا۔
اسی طرح اسی کتاب میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے نقل کر کے فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا۔ ’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ میں کوئی عیب نہیں اور آپ کسی برائی سے مہتم نہ تھے[1]۔‘‘ص۵۱
تنبیہ:
شاید آپ کے دل میں ان حوالہ جات کے بعد بھی یہ وسوسہ گذرے کہ ہو سکتا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کو امام صاحب کے مرجیہ ہونے کا علم نہ ہو۔ سو اس کا مختصر اور مسکت جواب یہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ میزان الاعتدال میں امام مسعر کے ترجمہ کے ضمن میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے بزرگ استاد حماد بن ابی سلیمان رحمہ اللہ کا بالخصوص ذکر کر کے سب مذکورین سے الزام ارجائی کو اس طرح دفع کرتے ہیں ۔
’’ مسعر بن کدام حجت ہیں ۔ امام ہیں ۔ اور سلیمانی کا یہ قول کہ مسعر اور حماد بن سلیمان اور نعمان یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور عمرو بن مرہ اور عبد العزیز ابن روّاد اور ابو معاویہ عمر بن ذرّ اور اس قسم کے دیگر بہت سے بزرگ جن کا ذکر اس نے کیاہے۔ مرجیہ میں سے ہیں قابل اعتبار نہیں ہے۔‘‘ (میزان جلد دوم ص۴۷ مطبوعہ لکھنؤ)
اس کے بعد حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
میں کہتا ہوں کہ ارجاء[2]بہت سے بڑے بڑے علماء کا مذہب ہے پس مناسب
[1] امام یحییٰ بن معین جرح میں متشددین سے تھے۔ باوجود اس کے وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کوئی جرح نہیں کرتے۔
[2] یعنی ارجاء کی وہ صورت جو اہل سنت کے نزدیک قابل اعتراض نہیں ہے۔ جو عنقریب انشاء اللہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت سے نقل کی جائے گی۔ اور کچھ علامہ شہرستانی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ حرانی رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے ذکر ہو چکی ۔