کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 74
بانہ لِیَکُن کذا وکذا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی سے ہر شے کی نسبت وصف کے طور پر اس کا حال لکھا ہے کہ وہ اس طرح اسی طرح ہو گی حکم کے طور پر یہ نہیں لکھا کہ اس طرح ہو۔[1] جہمیّہ: خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے عہد میں ایک شخص جعد بن درہم نے صفات الہیہ کا انکار شروع کر دیا۔ مسئلہ صفات الہیہ بڑا دقیق اور مشکل ہے۔ جس کی گتھی عقل و وہم کے ناخنوں سے نہیں کھل سکتی۔ ہم کیا اور ہماری بساط کیا؟ خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم دربار ایزدی میں اظہار عجز کر کے اور حقیقی علم کو اسی ذات سرمدی کے سپرد کر کے فرماتے ہیں لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک[2] پس اپنی عاجزی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس وقت ہمارا مقصود مسئلہ صفات کے متعلق اختلافات کی صورت کا بیان کر دینا ہے۔ جس کی مجمل تشریح یوں ہے کہ ذات بیچون عزاسمہ کی صفات دو قسم کی ہیں سلبیہ اور وجودیہ۔ سلبیہ سے یہ مراد ہے کہ ذات برحق کو جملہ معائب اور نقائص سے اور ہر چیز سے جو اس کی شان کے لائق نہ ہو منزہ و مبرا مانا جائے۔ اسے تنز یہ کہتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہ وہ جسم نہیں ہے۔ وہ کسی سے متحد نہیں ہوتا۔ اس کی ذات کسی میں علول نہیں کرتی وغیر ذلک۔ چنانچہ فرمایا:
[1] شرح فقہ اکبر مطبوعہ مصر ص۳۶۔ امام ابن تیمیہ فقہ اکبر کو امام ابو حنیفہ کی تصنیف قرار دیتے ہیں اور اسی سے آنجناب کو قائلین تقدیر میں شمار کرتے ہیں فان ابا حنفیۃ من المقرین بالقدر باتفاق اھل معرفتہ بہ وبمذھبہ وکلامہ فی الرد علی القدریۃ معروف فی الفقہ الاکبر وبسط الجحج فی الرد علیہم بما لم یبسطہ علی غیر ھم فی ھذا الکتاب (منہاج السنہ جلد۲ ص۲۴) ۔ یہ عاجز زلہ ربائے علمائے سلف کہتا ہے کہ حضرت امام صاحب رحمہ اللہ کے اس قول کی تائید کلام ربانی میں موجود ہے وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَأَسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ (انفال پ۹) [2] (خداوند) میں تیری ثنا (کماحقہ) بیان نہیں کر سکتا تو ویسا ہے جیسا تونے خود اپنی صفت بیان کی۔