کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 72
ایک ہی معنی ہیں اور اس موقع پر قضا کے معنی پیدا کرنے کے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فقضا ھن سبع سموات فی یومین یعنی پیدا کئے سات آسمان دو دن میں ۔‘‘ نکتہ نمبر۱: آیت محولہ بالا فقضا ھن سبع سموات (پ۲۴ حم السجدہ) میں حرف (ف) اور ھن (ضمیر منصوب) کے لانے میں ایک نہایت باریک علمی نکتہ ہے۔ جس میں امام خطابی رحمہ اللہ کے قول کی تائید ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پیشتر فرمایا۔ ثم استوی الی السماء یعنی پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان (بنانے) کا قصد کیا اس کے بعد ف سے مصدر کر کے فرمایا فقضاھن یعنی اس قصد کو پورا کرنے کے لئے آسمانوں کو بنا کھڑا کیا۔ اور آسمانوں کا ذکر اسم ضمیر (ھُنّ) سے کرنے میں یہی مضمر ہے کہ آسمانوں کی صورت کذائی اللہ کے علم ازلی میں قبل ان کی پیدائش کے حاضر تھی۔ ورنہ یہاں ھُنّ اسم ضمیر کا موقع نہیں تھا۔ پس معلوم ہوا کہ اسی صورت علمیہ پر حکم کن وارد ہوا اور وہ (آسمان) عالم شہود میں موجود ہو گئے۔ اور علم نحو میں مقدر اسی کو کہتے ہیں جو لفظاً تو موجود نہ ہو لیکن معنی و مراداً ذہن میں موجود ہو اس نکتے کی توضیح نیچے عنوان ’’فائدہ جلیلہ‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں ۔ فائدہ جلیلہ: اللہ تعالیٰ کا حکم ازلی ہے وہ حوادث اور ذی حوادث اشیاء کو ان کے حدوث و شہود کے قبل بھی ویسا ہی جانتا ہے جیسا کہ حدوث کے وقت اور اس کے بعد جانتا ہے۔ کیونکہ اس کا علم حضوری ہے۔ حصولی و محتاج آلات و اسباب نہیں ہے اور اس کا یہ علم ان اشیاء و حوادث کے جمیع حوادث و زمانہ پر بھی حاوی ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا علم کلی اور تفصیلی ہے پس جب اس کے علم کے مطابق کسی امر کے ظہور کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی اس صورت کو جو اس کے علم میں ہوتی ہے حکم کرتا ہے کن (ہوجا) (فیکون) تو وہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ منہاج السنۃ میں فرماتے ہیں ۔ وقد قال اللّٰہ تعالی إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (وھذا) عند اکثر العلماء ھو خطاب یکون لمن یعلمہ الرب