کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 69
فرقہ قدریہ: بصرہ میں زمانہ عبد الملک بن مروان میں ایک شخص معبد جہنی ظاہر ہوا۔ جس نے تقدیر کا انکار کیا۔ امام اوزاعی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ معبد نے انکار تقدیر ایک شخص سوسن نامی سے سیکھا جو مسلمان ہو گیا تھا۔ اور پھر مرتد ہو گیا۔ معبد کی آمد و رفت خواجہ حسن بصری کی مجلس میں بھی تھی۔ آپ نے اس کے عقائد پر نظر کر کے لوگوں کو اس کی مجالست سے منع کر دیا اور فرما دیا ’’ھو ضال مضل‘‘ یعنی یہ شخص خود بھی گمراہ ہے۔ اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا ہے۔‘‘ بصرہ کے بہت سے لوگ اس کے فتنے میں آگئے اور ان کا نام انکار تقدیر کے سبب قدریہ ہوا۔ معبد مدینہ طیبہ بھی گیا۔ اور وہاں بھی کئی لوگوں کو بگاڑا۔ آخر اس کو حجاج بن یوسف نے قتل کر ڈالا۔ کیونکہ یہ اس کے مشہور محارب عبد الرحمن بن اشعت کا طرف دار تھا۔ مسئلہ تقدیر کا اقرار امور ایمان میں سے ہے صحیح مسلم کی روایت ذیل ملاحظہ ہو۔ ’’قاضی یحییٰ بن یعمر بصری اور حمیر بن عبدالرحمن حمیری حج بیت اللہ کو گئے تو انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کر کے ان سے منکرین تقدیر کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا جب ان سے ملو۔ تو کہنا کہ میں (عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ) حلفا کہتا ہوں کہ اگر ان میں سے کسی کے پاس احد (پہاڑ) کے برابر بھی سونا ہو اور وہ اسے (راہ خدا میں ) خرچ کرے۔ تو [1]
[1] اخوذ ہیں ۔ واللّٰہ الھادی۔ (۳)مضمون مذکور علم حدیث۔ تاریخ‘ اسماء الرجال اور اسماء صحابہ کی کثیر التعداد اور کبیر الحجم کتب کے مطالعہ و انتخاب سے نہایت محنت و عرقریزی سے شدت گرما اور قحوط مطر کے زمانہ میں تیار کیا گیا ہے۔ اس سے انکار کرنے میں جلد بازی نہ کی جائے۔ خدا کے فضل سے اس میں نہ تو کوئی حوالہ غلط ہے اور نہ مطلب بیان کرنے میں کوئی مغالطہ ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ جو کچھ لکھا ہے طریق محدثین کو ملحوظ رکھ کر اس کے مطابق لکھا ہے اپنی رائے و قیاس اور وہم و خیال سے کچھ نہیں بنایا۔ ہاں یہ ضرور کہتا ہوں کہ انما انا بشر مثلکم انسی کما تنسون فاذا انسیت فذکرونی۔ وان اصبت فمن اللّٰہ وان اخطات فمنی ومن الشیطان۔ اللھم لک اختصم وبک اعتصم۔ (خاکسار میر سیالکوٹی)