کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 68
کریں ۔ لیکن ان لوگوں نے اس کی بجائے گالیاں دینی شروع کر دی ہیں ۔‘‘
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ صغیر میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تہذیب التہذیب میں ابو اسرائیل اسماعیل بن اسحاق کے ترجمہ میں نقل کیا ہے کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں گالیاں بکا کرتا تھا۔ ابو اسرائیل مذکور ۸۴ھ میں پیدا ہوا۔ تاریخ صغیر ص۱۸۷
مذکورہ بالا اختلافات سیاسی تھے
اس تفصیل سے صاف ظاہر ہے کہ جماعت صحابہ میں یہ اختلاف محض سیاسی تھا نہ مذہبی۔ اور یہ بھی کہ جماعت صحابہ رضی اللہ عنہ میں باوجود اس اختلاف کے دشنام دہی کسی کا مذہب نہیں تھا۔ جن لوگوں نے اسے داخل مذہب کیا تھا وہ مفسدین کی جماعت تھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہ سے الگ تھی۔ خواہ وہ سبائی تھے یا شیعہ و خارجی تھے۔
نیز یہ کہ اس وقت حضرت شیخین یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے متعلق کوئی تذکرہ نہیں چھڑا۔ نہ ان کے استحقاق خلافت پر گفتگو ہوئی نہ ان کے انتظام خلافت پر اعتراض ہوا۔ نہ ان کی فضیلت میں کسی کو کلام تھا۔ ہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے استحقاق خلافت کی نسبت تو نہیں لیکن آپ کے انتظام کی نسبت اخیر عہد خلافت میں ایک مفسد گروہ نے جن کا ذکر سابقاً گذر چکا ہے۔ ایجی ٹیشن (تحریک بغاوت) شروع کر دی۔ جس کی نوبت زبان درازی تک ہی نہیں بلکہ بڑھتے بڑھتے ان کی فضیلت بھی زیر بحث ہو گئی۔
لیکن حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ اسی سے سخت بیزار تھے تاریخ ابن خلدون میں متعدد جگہ مذکور ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے متعدد مواقع پر قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ملعون کہا۔
[1]
[1] یقاظ: خاکسار نے اس مضمون میں تاریخی واقعات کو بالتمام بیان نہیں کیا۔ بلکہ موضوع کتاب کو ملحوظ رکھ کر نہایت اختصار سے صرف ان امور پر اکتفا کیا ہے جن کو اصل مقصود یعنی مذہبی اختلاف سے تعلق ہے ہاں اس بات کا لحاظ خاص طور پر رکھا ہے کہ سلسلہ ذکر برابر چلتا جائے۔ تاکہ نتائج کے اخذ کرنے میں کوئی خلل یا ابہام ناظرین کے سد راہ نہ ہو۔
(۲) چونکہ سب امور مذکورہ منقولی ہیں ۔ اس لئے اکثر جگہ تو ماخذ کا حوالہ دے دیا ہے۔ اور جہاں حوالہ نہیں دیا۔ وہ تاریخ ابن جریر۔ تاریخ ابن اثیر اور تاریخ ابن خلدون میں سے کسی ایک یا دو یا تینوں سے