کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 54
النصوص تحمل علی ظاھرھا والعدول عنہا الی معان یدعیھا اھل الباطن الحاد وکفر[1] وہ اسی فرقے کی تردید میں ہے۔ انہوں نے ہر طرف کثرت سے اپنے مبلغین منتشر کئے جنہوں نے بہت سے خواہش پرست لوگوں کے خیالات پلٹ دئے اور اور ان کو مذہبی قیود سے آزاد کر دیا۔[2]
اس روش کے لوگ آج کل بھی ملحد فقیروں کی صورت میں پنجاب‘ ممالک متحدہ (ہندوستان) بنگالہ‘ سندھ اور دکن میں ملتے ہیں جن کے دام میں کئی ایک ناواقف مسلمان پھنس جاتے ہیں ۔
تنبیہ:
اس مقام پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان فرقہائے مذکورہ بالا میں سے بعض فرقے بعض کی ضد سے پیدا ہوئے یا یہ کہ ان کے اصول دوسروں کی ضد ٹھہرے مثلا خوارج شیعوں کی ضد ہیں مجسمہ معتزلہ کی ضد اور جبریہ قدریہ کی ضد اور وعید یہ مرجیہ کی ضد ہیں ایک درجہ افراط میں ہے تو دوسرا تفریط میں ان سب کے پیدا ہو جانے کی جامع وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے خیالات و قیاسات کو داخل شریعت کیا اور اس طریقہ کو ملحوظ نہ رکھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پاک جماعت صحابہ کرام کو چھوڑا تھا۔ اور وہ صدر اول سے ان کے اوقات تک برابر متوارث چلا آیا تھا۔
[1] یعنی نصوس شرعیہ قران و حدیث کو ان کے ظاہری اور عرفی شرعی معانی پر محمول کرنا چاہئے۔ اور شرعی اور عرفی اور لغوی معانی کو چھوڑ کر وہ معانی مراد لینے جو باطنیہ کہتے ہیں الحاد و کفر ہے۔
[2] مولانا عبد الحئی لکھنوی مرحوم نے فوائد بہیہ کے حواشی تعلیقات تراجم الحنفیہ میں قرامطہ کے بعض فسادات کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً تخریب بیت اللہ اور تیرہ یا سترہ سو حجاج کا قتل عام اور حجر اسود کا اکھاڑ کر لے جانا وغیرہ وغیرہ۔