کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 52
لڑائی نہیں ہوئی اور نہ امت مرحومہ کو ان کی بابت کوئی شک یا تردد پڑا اور ان دونوں کے بعد ان لوگوں کا معاملہ جو فتنہ (خانہ جنگی) میں داخل ہوئے موخر چھوڑتے ہیں اور خدا کے سپرد کرتے ہیں ۔‘‘ (الی آخر ماقال) پھر اس کے بعد حافظ صاحب ممدوح حضرت حسن بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے معنی میں فرماتے ہیں ۔ ’’حضرت حسن نے جو کچھ کہا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ ان دونوں گروہوں میں سے جو فتنہ (خانہ جنگی) میں لڑتے رہے کسی ایک کے حق میں بھی قطعی حکم نہیں لگاتے کہ کون ان میں سے خطا پر ہے اور کون صواب پر۔ اور آپ کا مذہب یہ تھا کہ وہ ان دونوں گروہوں کا معاملہ آخرت پر چھوڑتے تھے۔ لیکن وہ ارجاء جو ایمان کے متعلق ہے آپ کی التفات اس کی طرف نہیں ہے۔ اور ایسی صورت میں آپ پر کوئی عیب نہیں آسکتا‘‘ واللہ اعلم۔[1] اطلاق لفظ ارجاء لغت میں ارجاء کے دو معنی ہیں ۔ تاخیر کرنا بھی اور امید دلانابھی۔ بنا بریں ارجاء کا اطلاق کئی ایک مسائل پر آسکتا ہے۔ (۱) عمل کو ایمان سے موخر کرنا۔ (۲) حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو درجہ اول سے درجہ چہارم پر موخر کرنا۔ (۳) صاحب کبیرہ کے حکم کو قیامت پر موخر کرنا۔ اور اس دنیا میں اس کی نسبت کوئی قطعی حکم نہ لگانا کہ وہ جنتی ہے یا دوزخی ۔ (۴) ایمان کے ہوتے معاصی کا کچھ بھی ضرر نہ دینا۔ اور محض ایمان پر نجات کلی کی امید دلانا۔ اس چوتھی صورت کی نسبت علامہ شہرستانی فرماتے ہیں کہ وہ مرجیہ خالصہ ہیں اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ اور شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ اسے ہی خلاف خیار امت (صحابہ رضی اللہ عنہ و تابعین) کہتے ہیں ۔
[1] تہذیب التہذیب جلد دوم ترجمہ حسن بن محمد ص۳۲۱۔